یہ پاکستان میں ہی ہوسکتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے قتل میں سابق فوجی سربراہ ملزم ہو!

یہ صرف پاکستان جیسے ملک میں ہوسکتا ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم کے قتل کا بنیادی ملزم ایک سابق صدر و فوج کے چیف کو بنایا جائے۔ جی ہاں پاکستان میں ایسا ہی ہوا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل پرویز مشرف ایسے پہلے سابق فوج کے سربراہ ہیں جن پر ایک مجرمانہ معاملے میں مقدمہ چلے گا۔ جس دیش میں سب سے زیادہ طاقتورادارہ فوج ہے اور جہاں زیادہ تر فوجی ڈکٹیٹر حکومت کرتے رہے ہیں وہاں یقیناًیہ ایک تاریخی واقعہ ہی ہے۔ راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے معاملے میں جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ سماعت کے لئے داخل کرلیا ہے۔ عدالت میں مشرف سمیت8 لوگوں پر الزام لگائے گئے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے66 برسوں کی تاریخ میں زیادہ تر وقت میں فوجی حکومت رہی ہے۔ سرکاری وکیل چودھری محمد اظہر کے مطابق مشرف اور معاملے کے دو دیگر ملزم راولپنڈی پولیس کے سابق چیف سید عزیز و پولیس ایس پی خرم شہزاد کی موجودگی میں چارج شیٹ پڑھی گئی۔ ان تینوں کے علاوہ چار دیگر ملزمان حسنین گل، رفاقت حسین، شیرالزماں اور عبدالرشید پر الزام پہلے ہی عائد ہوچکے ہیں جبکہ قتل کے آٹھویں ملزم اعجاز شاہ کا مقدمہ نابالغ ہونے کے چلتے الگ عدالت میں چلے گا۔ مشرف 1999ء میں نواز شریف کا تختہ پلٹنے کے بعد2008ء تک پاکستان کے حکمراں رہے۔ زرداری کی حکومت آنے کے بعد انہیں جلا وطن کردیا گیا اور وہ دوبئی و برطانیہ چلے گئے۔ چار سال بعد پاکستان کے عام چناؤ میں حصہ لینے کے لئے اسی برس مارچ میں وطن لوٹے تھے اور یہیں سے ان کی مصیبتیں شروع ہوگئیں۔ مشرف کی مصیبتوں کا نہ یہ پہلا باب ہے اور نہ آخری۔ وزیر اعظم نواز شریف ان پر ملکی بغاوت کا مقدمہ چلانا چاہتے ہیں اس کے علاوہ بلوچ لیڈر نواب اکبر بکتی کے قتل اور سپریم کورٹ کے ججوں کی برخاستگی کے معاملے کی تلوار بھی ان پر لٹک رہی ہے۔ ہماری سمجھ سے یہ باہر ہے کہ آخر کیا سوچ کر مشرف پاکستان لوٹے؟ کیا انہیں یہ سچ مچ غلط فہمی تھی کہ پاکستانی عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھا لے گی اور کہے گی کہ آپ دیش کااقتدار پھر سے سنبھال لیں؟ وہ جب سے پاکستان لوٹے ہیں تقریباً تبھی سے وہ نظر بند ہیں اور انہیں چناؤ لڑنے سے بھی نا اہل قراردے دیا ہے۔ پاکستان کی عوام میں کوئی ان کا نام لینے کو تیار نہیں ہے۔ سیاست اور عدلیہ کے طاقتور لوگوں کے ان کے ہاتھوں ہوئی نا انصافی اور مظالم و بے عزتی کو بھولے نہیں ہیں اب ان پر قتل کا الزام بھی باقاعدہ درج ہوگیا ہے جس میں سب سے بڑی سزا پھانسی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہوگا کہ پاکستانی فوج اپنے سابق چیف کے اس معاملے کو کس طرح لیتی ہے؟ پہلے یہ لگ رہا تھا کہ ممکن ہے فوج دباؤ بنا کر مشرف کو دیش سے نکلوا دے گی لیکن مقدموں کے چلتے یہ ممکن نہیں لگتا۔ پاک فوج کی مشکل یہ ہے کہ بیشک آج بھی وہ سب سے زیادہ طاقتور ہو لیکن اس کا براہ راست اقتدار ہتھیانا اب مشکل ہے۔ فوج کے اندر اب بھی ایسے عناصر ابھر رہے ہیں جو اب تک کی فوج کی حکمت عملی اور نیت دونوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ مشرف کی مشکل طالبانی بھی ہیں جو لال مسجد حملے کے لئے انہیں سیدھے ذمہ دار مانتے ہیں اور بدلہ لینا کا انتظار کررہے ہیں۔ آج سے پہلے عدالتوں نے کسی جنرل پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ تازہ حالات سے پتہ چلے گا کہ پاکستان کس طرف بڑھ رہا ہے شاید یہ تبدیلی پاکستان کو بہتری کی طرف لے جائے؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!