راڈیا ٹیپ کانڈ :کٹہرے میں مرکزی سرکار!

سرخیوں میں چھایانیرا راڈیا ٹیپ معاملہ ایک بار پھر ابھر آیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ لابسٹ نیرا راڈیا کے وزرا، صنعت کاروں، صحافیوں اور افسر شاہوں کے درمیان بات چیت کو مرکزی حکومت نے ٹیپ کرایا تھا۔ اس میں سرکاری کام کاج میں کس طرح باہری دباؤ ڈالا جاتا ہے اس کا پتہ چلا ہے۔ معاملہ اب تک تو بند ہوچکا ہوتا اگر یہ حکومت کے ہاتھ میں ہوتا کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لئے حکومت بھی کچھ حدتک مجبور ہے۔ لیکن وہ عدالت سے مجبوری میں تعاون نہیں کررہی ہے۔ اب معاملے کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے نیرا راڈیا کے ٹیلیفون ٹیپ کرنے کا حکم دیاتھا لیکن مرکزی سرکار نے ان کوعدالت میں نہیں رکھا۔ اس پر عدالت خفا ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ بنیادی ریکارڈ دستیاب نہ کرانے سے تنازعے کو نپٹانے میں مشکلیں آئیں گی۔ عدالت نے کہا مرکزی سرکار کا رویہ بیحد مایوس کن ہے۔ یہ ہی نہیں عدالت عالیہ نے بنیادی ریکارڈ پیش کرنے تک سرکار کا موقف سننے سے بھی انکارکردیا ہے۔ جسٹس جی ۔ایس سنگھوی کی سربراہی والی بنچ نے کہاکہ عدالت مرکزی سرکار کا موقف اس وقت تک نہیں سنے گی جب تک ضروری دستاویزات عدالت میں پیش نہیں کئے جاتے۔ بنچ نے کہا یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ بھارت سرکار کے وکیل عدالت کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ عدالت نے مرکزی حکومت کو راڈیا کے ٹیلیفون ٹیپ سے متعلق سارا ریکارڈ27 اگست تک پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔عدالت نے 2008-09 میں ٹیلیفون نگرانی کے مسئلے کو دیکھنے والی جائزہ کمیٹی کی کارروائی کی تفصیل پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزیر خزانہ کو 16 دسمبر 2007ء کو ملی ایک شکایت کی بنیادپرنیرا راڈیا کے ٹیلیفون کی سرویلنس شروع کی گئی تھی۔ اس بات چیت کی ریکارڈنگ بھی کی گئی۔ اس شکایت میں الزام لگایاگیا تھا کہ9 سال کی قلیل میعاد کے اندر اس نے 300 کروڑ روپے کا کاروبار کیسے کھڑا کر لیا ہے۔ اس مقدمے میں ایک دلچسپ موڑ اب یہ آگیا ہے کہ ٹاٹا گروپ کے سابق چیئرمین رتن ٹاٹا نے ان راڈیا ٹیپوں پر سرکاری مطالبوں کو لیکر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ رتن ٹاٹا نے اشارہ دیا ہے کہ شاید سیاسی مقصد سے ایسا کیا گیا ہو۔سپریم کورٹ نے اسی بنچ کے جسٹس جی۔ ایس۔ سنگھوی کی سربراہی والی ڈویژن بنچ کے سامنے رتن ٹاٹا کی جانب سے سینئر وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ پبلک زندگی سے جڑا ہر ایک شخص اپنی ذاتیات کی پرائیویسی کی توقع رکھتا ہے۔ اس طرح کی بات چیت افشاں ہونے سے اس کی پرائیویسی کے اخلاقی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سالوے نے کہا سرکار کا یہ برتاؤ سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ میرے دماغ میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے۔ جب جانچ کرنے میں ان کی دلچسپی نہیں تھی تو پھر انہوں نے بات چیت ٹیپ کیوں کروائی؟ حکومت نے 5 ہزارگھنٹے کی بات چیت ٹیپ کی اور پھر اس پر کترا گئی۔حکومت نے کسی دیگر مقصد سے ایسا کیا تھا۔ اس میں سیاسی نقطہ نظر سے تمام تضادی مواد ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ سرکار نے ٹیپ کی گئی بات چیت کی بنیاد پر کارروائی کیوں نہیں کی جبکہ وزیر خزانہ کو ملی ایک شکایت کے بعد راڈیا کے ٹیلیفون پر نگرانی رکھی گئی تھی۔ سالوے نے کہا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹیلیفون ٹیپنگ کسی اور وجہ سے کرائی گئی تھی لیکن میرے پاس اسے ثابت کرنے کے ثبوت نہیں ہیں۔ کوئی سرکار بعد میں نہیں کہہ سکتی کہ وہ شہریوں کے اختیارات کا تحفظ کرنے میں لاچار ہے۔ آپ کو ان اختیارات اور سرکاری سیغہ راض قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی۔ کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لئے اس پر کسی طرح کی رائے زنی نہیں کی جاسکتی لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ شری سالوے کی دلیل میں ہی جواب چھپا ہے۔ وہ مانتے ہیں ٹیپوں میں دھماکوں سیاسی مواد ہے اس لئے معاملہ ذاتی نہیں ہے۔ یہ سرکار اور سرکاری کام کاج کے طریقوں اور ان میں دخل اندازی سے متعلق ہے اس لئے یہ جنتا کے سامنے آنا چاہئے اوراس میں جو لوگ شامل ہیں وہ بے نقاب ہونے چاہئیں تاکہ مستقبل میں حکومت اور یہ فنکار دس بار سوچیں کے سرکاری کام کاج میں دخل اندازی کا انجام کیا ہوتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟