کون چاہتا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ؟

4836 ممبران میں سے 1460 داغی ہیں۔داغی عوامی نمائندوں کی ممبر شپ ختم کرنے، انہیں چناؤ لڑنے سے روکنے کے سپریم کورٹ کے حکم سے بچنے کیلئے سبھی پارٹیاں و ممبران پارلیمنٹ نے آپس میں کافی منتھن کرکے آخرکار سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثر کو کم کرنے کا راستہ نکال لیا ہے۔ اب قصوروار ایم پی اور ممبر اسمبلی کی سیٹھ پر بچی رہے گی اور وہ جیل میں رہتے ہوئے چناؤ بھی لڑتے رہیں گے۔ سپریم کورٹ نے 10 جولائی کو اپنا ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے داغیوں پر چناؤلڑنے کے لئے روک لگادی تھی لیکن سرکار نے اس فیصلے کو پلٹنے کے لئے عوامی رائے دہندگان قانون میں ہی تبدیلی کردی ہے۔ کیبنٹ نے جمعرات کو اس ترمیم پر اپنی مہر لگادی ہے۔ سیاست میں جرائم پیشہ لوگوں کی بڑھتی اینٹری کو روکنے کے لئے اب تک زبانی تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔ ہماری سیاسی جماعت کی قلعی مسلسل کھلتی رہی ہے۔ سزا یافتہ ایم پی اور ممبران اسمبلی کی ممبر شپ ختم کرنے اور جیل یا حراست سے چناؤ لڑنے پر روک لگانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیبنٹ نے آخر کار پلٹنے کا اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ بد قسمتی سے اس پر پارلیمنٹ یا سیاسی جماعت میں کوئی منفی آواز شاید ہی سنائی دے گی۔ عوامی مفاد کے اشوز کو کبھی رضامندی تو کبھی وسائل کی کمی بتا کر ٹالنے والی سرکار کی داغیوں کو راحت دینے کی یہ جلدبازی حیرت میں ڈالنے والی ضرور ہے۔ 
یہ سمجھ سے باہر ہے کے جب ان فیصلوں کے سلسلے میں سرکار عدالت میں نظرثانی اپیل دائر کرچکی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی سماعت ہونی ہے تو اس کا انتظار کرنے میں کیا دقت تھی؟ ممکن ہے آئندہ کچھ دنوں میں پارلیمنٹ بھی کیبنٹ کی اس سفارش پر اپنی مہر لگادے گی۔ کیونکہ سبھی پارٹیاں سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کررہی تھیں۔ کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ 10 جولائی سے ہی نافذ ہوگیا تھا اس لئے سرکار نے طے کیا ہے قانون میں ترمیم بھی 10 جولائی سے ہی نافذ العمل مانی جائے گی یعنی چور دروازے سے؟ سوا مہینے میں ہی سیاست کا شدھی کرن کردیاگیا۔ نئی ترامیم کے مطابق کسی پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی کو سزا ہوجاتی ہے تو 90 دن کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کر فیصلے پر روک حاصل کرسکتا ہے تووہ نااہل قرار نہیں ہوگا۔ اس کے لئے عوامی رائے دہندگان قانون کی دفعہ8 کی سیکشن20 جرائم 4 میں بدلی گئی ہے۔ جیل میں رہتا کوئی بھی شخص چناؤ لڑ سکتا ہے۔ دلیل دی گئی ہے کہ جیل جانے کے بعد بھی اس کا ووٹر لسٹ سے نام نہیں ہٹایا جاسکتا۔ صرف ووٹ دینے کا حق معطل ہوتا ہے۔ اس کے لئے عوامی رائے دہندگان قانون کی دفعہ62 کی سیکشن2 بدلی گئی ہے۔ہاں دکھاوے کے لئے دو شرطیں جوڑدی گئی ہیں۔ سزا کے بعد بھی ممبر تو بنا رہے گا ایوان میں جائے گا لیکن ایوان کی کارروائی میں ووٹ دینے کا اسے حق نہیں ہوگا۔ سزا یافتہ ممبر اپیل کے بعد آخر فیصلے تک تنخواہ بھتے کے اختیارسے محروم ہوگا کیونکہ تمام پارٹیاں اس کے حق میں ہیں اس لئے اب قانون میں ترمیم کا راستہ تقریباً صاف ہوچکا ہے ممکن ہے کہ اسی سیشن میں یہ بل پیش کردیا جائے اور بغیر بحث کے پاس ہوجائے۔ نیا قانون نافذہونے کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ خود بخود بے اثر ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ میں اس وقت 151 سے زیادہ بل لٹکے پڑے ہیں۔ حکومت عام رائے کا بہانہ بنا کر اس پر فیصلے نہیں لے پارہی ہے لیکن داغی لیڈروں پر مصیبت آئی تو فوراً قانون بدل گیا۔ صاف ہے کہ ہماری سیاسی جماعت شفافیت اور جوابدہی کو لیکر شہریوں کے بدلتے مزاج اور توقعات کو سمجھ نہیں پارہی ہے یا سمجھنا نہیں چاہتی اور یہ حالت بیحد تشویشناک ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟