84 کوسی ون ڈے میچ ٹائی رہا نہ وی ایچ پی ہاری اور نہ سرکار جیتی!

سبھی جانتے ہیں کہ اترپردیش دیش کا سب سے بڑا سیاسی میدان ہے۔ مذہبی طور سے بھی اور سیاسی نقطہ نظر سے بھی۔ آخر یہاں پر 80 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ پھر رام للاکا بھی سوال ہے۔84 ہی کیوں بھاجپا اور وشوہندو پریشد کو 184 کوس کی یاترا ہی کیوں نہ کرنی پڑے، وہ کریں گے۔ سماج وادی پارٹی ہر ایسی کوشش کو ہر حال میں روکے گی کیونکہ سیکولرازم کی مالا جپ کر مسلم ووٹوں کو بنائے رکھنے کی جہاں مجبوری ہے وہیں کانگریس کو ہر ہال میں دھکا پہنچانا بھی سپا کی پالیسی ہے۔ ایودھیا کے اردگرد زیادہ تر لوک سبھا سیٹوں پر کانگریس کا قبضہ ہے اس لئے دونوں بھاجپا او ر سپا کو کانگریس سے سیٹیں چھیننے کے لئے بہانہ چاہئے۔ 2009ء میں کانگریس نے یوپی میں 22 سیٹیں جیتی تھیں۔ان میں 14 سیٹیں اسی پریکرما میںآتی ہیں۔ پولارائزیشن سے لڑائی سپا بنام بھاجپا ہوجائے گی۔ ایودھیااشو گرمانے سے مسلم ووٹ سپا میں چلے جائیں گے ایسی صورت میں ریاست کے1290 برہمن برادری ووٹ متحد ہوکر بھاجپا کو ملیں گے۔ 1998ء کی مثال سامنے ہے تب ہندوتو اور اٹل لہر میں بھاجپا کو 46 سیٹیں ملی تھیں۔ نریندر مودی اور بھاجپا کے انچارج امت شاہ کی یہ ہی کوشش بھی ہے اس لئے کانگریس کے بڑبولے سکریٹری جنرل نے پورے واقعے کو سپااور بھاجپا کے درمیان میچ فکسنگ قراردیا ہے۔ چناوی سال میں 84 کوسی پریکرما کے اعلان اور اسے روکنے کے لئے اترپردیش سرکار کی کارروائی کو کانگریس سب سے بڑے راجیہ میں فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹوں کے پولرائزیشن کی کوشش کے طور پر دیکھ رہی ہے۔سماج وادی پارٹی کو یہ فائدہ نظر آتا ہے کہ اگر یوپی میں بھاجپا بڑھتی ہے تو پارٹی کو 18فیصدی مسلم ووٹ اپنی طرف کھینچنے کا موقعہ ملتا ہے۔ نریندر مودی کے آنے کے بعد سپا اسی حکمت عملی پرکام کررہی ہے۔ اس کی تین تازہ مثالیں ہیں پہلی درگا شکتی معاملہ، دوسرا مسلم ووٹوں کو ریزرویشن تیسرا ایودھیا اشو پر1990 جیسی سختی دکھانا۔ مرکزی وزیر بینی پرساد ورما نے کہا سپا اور بھاجپا 1990ء سے ہی ملی ہوئی ہیں ۔ ووٹوں کے پولرائزیشن کے لئے یہ ڈرامہ رچا گیاہے۔ ادھر وی ایچ پی لیڈر اشوک سنگھل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بڑے بڑے سادھو سنت گرفتار ہوئے ہیں آپ کو فکسنگ لگتی ہے۔ اترپردیش کی مغلیہ سلطنت اور سونیا کو بھگوان کا شراپ لگے گا۔ اعظم خاں نے کہا کہ کانگریس کو میچ فکسنگ کا کچھ زیادہ ہی تجربہ ہے۔ فکسنگ کرکے ہی تو ان کے وزیر اعظم نے 1992ء میں بابری مسجد ڈھانے دی تھی۔ اوما بھارتی نے پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نہیں یہ تو سپا اور مرکزی حکومت کی فکسنگ ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست کے لئے کل ملاکر 84 کوسی پریکرما کا یہ وی ایچ پی اور سپا میں ون ڈے میچ ٹائی رہا نہ وی ایچ پی جیتی اور نہ سپا سرکار ہاری۔ رام کی نگری میں وشوہندو پریشد اپنے نئے ایکشن پلان 84 کوسی پریکرما کے پہلے دن اپنا پریکرم نہیں دکھا سکی۔وہیں پریکرما علاقہ سدھ کرنے کا دعوی کررہی سماج وادی پارٹی کی سرکار سریو ندی کے کنارے تک وی ایچ پی نیتاؤں کو جانے سے نہیں روک پائی یہ اور بات ہے کہ کافی تعداد نہ اکھٹی ہوپانے سے سریو ندی میں پوجن پروگرام باقاعدہ نہ ہوسکا۔ پروین توگڑیا، رام ولاس ویدانتی و نرتیہ گوپال داس جیسے کٹر وی ایچ پی نیتاؤں کو گرفتار کرکے انتظامیہ نے یاترا آگے نہیں بڑھنے کی بات بھی رکھ لی سرکار کو سکون ہے یاترا ناکام کردی ہے وہیں وی ایچ پی کے لئے یہ تو ریہرسل ہے لڑائی تو ابھی باقی ہے۔ نہ کارسیوک نہ رام سیوک۔ نہ اڈوانی نہ کلیان ،کٹیار، اما بھارتی تھے۔ دراصل یہ بڑی لڑائی کا ریہرسل تھا جو اکتوبر میں شروع ہونے والی ہے۔ اشوک سنگھل نے اس کا اعلان بھی کردیا ہے۔ سنگھ کے حکمت عملی ساز جانتے تھے کہ مندر اشو پر تحریک کو سپا سرکار اجازت نہیں دے گی۔ وہ تو شاید اس اشو کو گرمانا چاہتے تھے۔ نتیجہ جیسا چاہتے تھے ویسا ملا۔ اس کا استعمال اکتوبر ہوگا۔ سنگھل نے اعلان کردیا ہے کہ مرکزاگر18 اکتوبر تک پارلیمنٹ میں قانون بنا کر مندر تعمیر کا راستہ تیار نہ کرتی تو دیش میں ایک لاکھ مقامات پر مندر تعمیر کا عہد کیا جائے گا۔ یعنی مشن پولرائزیشن اکتوبر سے شروع ہوگا۔ امت شاہ زمین تیار کررہے ہیں، مودی اکتوبر میں اترپردیش میں بڑی ریلی کو خطاب کریں گے۔دسہرہ ۔دیوالی کا ماحول ہونے سے ایودھیا میں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں ٹھیک اسی دوران پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ کا ماحول بنانا شروع ہوگا۔ کانگریس مرکز میں اقتدار میں ہے، دباؤ اسی پر رہے گا۔ نتیجہ دیش بھر میں کانگریس کے خلاف ماحول بنے گا اور فائدہ اٹھائیں گے نریندر مودی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!