راہل گاندھی کو لیکر کانگریس میں شش و پنج کی صورتحال!

کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر اور راہل گاندھی کے چیف سیاسی مشیر دگوجے سنگھ نے اشارہ دیا ہے کہ آنے والے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس راہل گاندھی کو وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار اعلان نہیں کرے گی۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ اگر پارٹی اگلے سال ہونے والے عام چناؤ میں کامیاب ہوتی ہے تو پردھان منموہن سنگھ تیسری بار اس بڑے عہدے کے لئے امیدوار ہوں گے۔ دگوجے سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہمارے یہاں صدارتی نظام نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی چناؤ سے پہلے نہ تو وزیر اعلی کے عہدے کا امیدوار اعلان کرتی ہے اور نہ ہی وزیر اعظم کے عہدے کا۔ ان سے پوچھا گیا کہ کانگریس راہل گاندھی کو وزیر اعظم عہدے کے امیدوار کے طور پرپیش کرنے کو لیکر کیوں ہچکچا رہی ہے اور اس کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار کون ہوگا۔ راہل گاندھی کو ابھی سے پی ایم عہدے کا امیدوار اعلان کرنے میں کانگریس کو ہچکچاہٹ نظر آرہی ہے۔ کانگریس نے دگوجے سنگھ سمیت کئی لیڈروں کے متضاد بیانوں سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہا کہ پردھان منتری کے عہدے کے لئے پارٹی نائب صدر راہل گاندھی کی امیدواری پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں پارٹی کے جنرل سکریٹری اجے ماکن نے کہا کہ اس بارے میں ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔ جب بھی اس پر فیصلہ ہوگا تو آپ کو پتہ چل جائے گا۔ جب اس معاملے میں وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگلا لوک سبھا چناؤ وزیر اعظم منموہن سنگھ، کانگریس صدر سونیاگاندھی، راہل گاندھی کی رہنمائی میں لڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کچھ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ پارٹی اس معاملے میں ایک ایجنڈا رکھے ، اگر ایسے لوگوں کو پارٹی کے بنیادی کام کے طریقے کی سمجھ نہیں ہے۔ پارٹی کے کئی لیڈروں کا کہنا ہے راہل وزیر اعظم عہدے کے امکانی امیدوار ہیں۔ کانگریس نائب صدر کے طور پر وہ پارٹی تنظیم میں نمبر دو پر ہیں۔ دراصل ہمیں لگتا ہے کہ مودی بنام راہل کی بحث سے کانگریس پرہیز کررہی ہے۔ کانگریس چاہتی ہے شخصیت کی جنگ سے پارٹی کو بچانا چاہئے اور پارٹی کی فی الحال پوری توجہ نظریئے اور اشوز پر ہونی چاہئے۔ پارٹی تو آئیڈیالوجی اور اشوز کے بہانے حملہ کرے گی لیکن راہل کو اس بحث سے دور رکھنے کی کوشش کرے گی۔ پارٹی کی کمیونی کیشن ٹیم نے حال ہی میں ایک میٹنگ کی تھی اس میں کئی ترجمانوں نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ سیاسی لڑائی کا رخ مودی بنام راہل نہ ہو پائے۔ پارٹی کا خیال ہے کہ ٹیم مودی پورے سیاسی پس منظر کو امریکی طرز پر لے جاناچاہتی ہے۔یہاں دو شخصیتوں کے بیچ لڑائی نہیں ہوسکتی بلکہ نظریہ اور اشوز کی لڑائی ہونی چاہئے۔ اپنے عہدکے آخری سال میں یوپی اے سرکار کو اگر آج کی تاریخ میں چناؤ کروانے پڑے تو ایک سروے کے مطابق کرپشن ،مہنگائی، گھوٹالے اور بڑے فیصلے لینے میں نااہلی کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ کیا نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار اعلان کیا جائے تو وہ 36 فیصدلوگوں کی پسند کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ کانگریس کے راہل گاندھی کو13 فیصدی لوگوں نے ووٹ دیا ہے۔ منموہن سنگھ کے لئے 12 فیصدی ووٹ ملے ہیں۔تلخ حقیقت تو یہ ہے آج کی تاریخ میں راہل گاندھی کی ساکھ دھندلی ہے۔ انہیں بھاجپا سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کانگریس انہیں پی ایم امیدواری کے طور پر اعلان کرنے سے فی الحال کترارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟