میں راشٹروادی ہوں،ہندو اس لئے ہندوراشٹروادی ہوں،نریندر مودی

یوں تو گجرات کے وزیر اعلی کبھی بھی تنازعوں سے اچھوتے نہیں رہے لیکن جب سے وہ تیسری بار گجرات اسمبلی چناؤ جیتے ہیں اور مرکزی اسٹیج پر آئے ہیں انہیں لیکر تنازعے اور بڑھ گئے ہیں۔ تازہ تنازعہ نریندر مودی کے ذریعے دیا گیا رائٹرز سماچار ایجنسی کو دئے گئے ایک انٹرویو کو لیکر ہے۔ بتاتے چلیں کے انہوں نے اس میں کیا کہا ہے۔ مودی کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی ہندو ہیں اور انہیں ہندو ہونے پر فخر ہے۔ وہ ایک راشٹروادی ہیں اور ہندو ہیں، اس لئے وہ ہندو راشٹروادی ہیں۔اور یہ ہونا کوئی گناہ نہیں۔ وہ دیش بھکت ہیں اور ہر شہری کو دیش بھکت ہونا چاہے۔ انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کے کیا انہوں نے 2002 ء میں گجرات دنگوں کے دوران صحیح کام کیا تھا۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ بالکل صحیح ۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعے بنائی گئی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے مجھے پوری طرح کلین چٹ دے دی ہے۔ اس سے پوچھا گیا ہے کہ کیا انہیں اس بات کو لیکر کوئی خفت ہوتی ہے کہ انہیں لوگ ابھی تک2002ء کے گجرات دنگوں سے جوڑتے ہیں؟ مودی نے کہا یہ جمہوری دیش ہے ہر کسی کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ میں اپنے آپ کو قصوروار محسوس کیسے کروں جب میں نے کچھ غلط کیا ہی نہیں۔ جو کچھ ہوا اس پر آپ کو دکھ ہے؟ اس سوال کے جواب میں مودی بولے اگر ہم کارچلا رہے ہوتے ہیں ہم ڈرائیور ہیںیا کوئی اور کار چلا رہا ہے اور ہم پیچھے بیٹھے ہیں تو بھی کسی’ پپی‘ (کتے کے بچے) کا پہئے کے نیچے آجانا تکلیف دہ ہوگا یا نہیں؟ایسا ہوگا چاہے میں وزیر اعلی ہوں یا نہیں میں ایک انسان ہوں۔ اگر کبھی کچھ برا ہوتا ہے تو دکھی ہونا فطری ہے۔ مودی کے اس بیان پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔
زیادہ تر تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے کتے کے پلے کی مثال دے کر اقلیتوں کی بے عزتی کی ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کا موازنہ کتے سے کیا ہے۔ حالانکہ مودی کے بیا ن کوتوڑ مروڑ کر پیش کیا جانے والا دیکھاجارہا ہے۔ لیکن میں مانتا ہوں کے بہتر ہوتا کے وہ اپنی بات کہنے کے لئے کوئی اور بہتر مثال دیتے۔ یہ مثال اچھی نہیں رہی لیکن جہاں تک فسادات کا سوال ہے تو یہاں پر2002ء کے فسادات کو تین چار زمروں میں دیکھا جانا چاہئے۔ پہلا کے یہ ایک ردعمل کی شکل میں فساد تھا کیونکہ27 فروری 2002ء کو سابرمتی ایکسپریس میں 59 کار سیوکوں کو زندہ جلایا گیا تھا اس کے ردعمل میں جھگڑے شروع ہوگئے اور فسادات میں کل1267 لوگ مارے گئے جن میں 740 مسلمان تھے اور 254 ہندو۔ فسادات کے بعد 27901 گرفتاریاں ہوئیں جن میں 7656 ہندو گرفتار ہوئے ۔249 مقدموں کو سزا ہوئیں۔ یہ سزا تب ممکن ہوئی جب ریاستی حکومت نے جانچ ایجنسیوں، عدالتوں کی پوری مدد کی۔ 
اب آپ اس کا موازنہ کرئیے 1984ء کے دہلی دنگوں سے۔ سورگیہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد رد عمل میں سکھ مخالف دنگے بھڑکے۔ ان دنگوں میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ آج تک کوئی اہم شخص کو سزا تک نہیں ہوسکی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عدالت میں درجنوں جانچ ہوئیں، سپریم کورٹ نے باقاعدہ ایک جانچ کمیٹی ایس آئی ٹی بنائی ، اس ایس آئی ٹی نے مودی کو کلین چٹ دے دی۔ پھر آتی ہے بات سیاسی اشو کی۔ یوں تو مودی کو نیچا دکھانے کے لئے یہ اشو ان کے حریف ہمیشہ زندہ رکھیں گے لیکن اگر گجرات کی جنتا کی بات کریں تو فسادات کے بعد بھی مودی دو اسمبلی چناؤ جیت چکے ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ گجرات کی عوام نے انہیں معاف کردیا ہے۔ ان سب کے باوجود اگر مودی افسوس ظاہرکررہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن جب ایجنڈا سیاسی ہے تو یہ سب بے معنی ہے۔ اشوز کو 2014ء تک زندہ رکھا جائے گا۔ 
ویسے ایک مثال دیتا ہوں۔ آپ سب نے ’شعلے‘ فلم دیکھی ہوگی۔ اس فلم میں اگر سب سے زیادہ کوئی چمکا ہے تو وہ ویلن امجد خاں۔ اس کی وجہ تھی کے ہیرو اس پر حملہ کررہے تھے۔ اس چکر میں وہ تو فلم کا ہیرو بن گیا اور تمام ہیرو نیچے آگئے۔ کہیں یہ قصہ نریندر مودی کے ساتھ نہ ہو۔ جس طرح سے چاروں طرف سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے کہیں یہ نہ ہو کے انہیں فائدہ ہوتا رہے اور باقی دھرے دھرائے رہ جائیں۔ شاید یہ ہی مودی چاہتے بھی ہوں گے۔ ان پر حملہ کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کے وہ مودی کی ہر بات پر ردعمل نہ کریں۔ انہیں زبردستی ہیرو نہ بنائیں۔ رہی بات ہندو ہونے کے فخرکی تو اس میں غلط کیا ہے۔ کیا ہندو ہونا اس دیش میں جرم ہے؟ ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ اکثریتی طبقہ تو ویلن بن جائے۔ جب دیش کا وزیر اعظم کہے کہ دیش کی املاک وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے تو وہ کونسی سیکولر ازم کی بات کررہے ہیں؟ 
بھارت میں سب برابر ہیں اور سبھی کو ایک نقطہ نظرسے دیکھا جائے چاہئے۔ ایک وقت ایک جیسا برتاؤ ہونا چاہئے۔ وسائل سبھی کے لئے برابر ہیں لیکن یوپی اے سرکار کی ووٹ بینک کی حکمت عملی نے دیش کو اندھیرے میں جھونک دیا ہے۔ عشرت جہاں انکاؤنٹر پر تو اتنی بحث ہورہی ہے لیکن اس بدقسمت پرگیا ٹھاکر کی کوئی بات نہیں کرتا جو این آئی اے کے حیوانوں کی مار سے مرنے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ پچھلے تین چار سال میں اس بیچاری کے خلاف چارج شیٹ تک نہیں داخل ہوسکی ہے۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ایک پرانی موٹر سائیکل کسی ثابت ہوئے مشتبہ کو بیچی تھی۔ اس سرکار کا یہ حال ہے کہ ووٹ بینک کی سیاست کے چلتے انہوں نے دیش کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی این آئی اے ، آئی بی اور سی بی آئی کی جانچ کو آمنے سامنے لاکرکھڑا کیا ہے۔ بھلے ہی ایسا کرنے میں دیش کی سلامتی اور سالمیت کو کیوں نہ نقصان پہنچا رہے ہوں؟ بس کسی طرح ہندو دہشت گردی کو ثابت کرنا ہے۔
دیش کے کروڑوں اکثریتی اس سرکار کی خوش آمدی کی پالیسی سے عاجز آچکے ہیں۔ اگر مودی یہ کہتے ہیں کہ’ مجھے ہندو ہونے پر فخر ہے ‘ تو اس میں غلط کیا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟