آئی بی اور سی بی آئی کو آمنے سامنے کھڑا کرنا ملک کی سلامتی سے کھلواڑ !

جس بات کا ڈر تھا وہی ہورہا ہے۔ سیاسی داؤ پیچ میں پھنس کر ہلکان ہوئی خفیہ ایجنسی آئی بی اب خفیہ اطلاعات دینے سے توبہ کررہی ہے۔عشرت جہاں معاملے میںآئی بی کے اسپیشل ڈائریکٹر راجندر کمار سمیت کچھ افسروں کو نشانے پرلینے اور مرکزی سرکار کے اس کے بچاؤ میں پیچھے ہٹنے سے آئی بی کافی مایوس ہے۔اسی کے چلتے آئی بی نے دہشت گردانہ سرگرمیوں سے جڑی اہم خفیہ معلومات شیئر کرنا بند کردیا ہے۔ آتنکی خطرے سے متعلق صرف وہی اطلاع دیتی ہے۔دیگر ایجنسیوں کے ذریعے سے ملٹی ایجنسی سیل میں آتی ہے۔وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر کے مطابق پچھلے ایک مہینے سے انہیں آئی بی کی خفیہ وارننگ رپورٹ نہیں ملی ہے۔ آئی بی ہر دن پورے دیش میں ہوئے واقعات کی رپورٹ وزارت داخلہ و وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ دیش میں بدامنی ،جھگڑے اور دہشت گردانہ حملے کی سازش کی خفیہ رپورٹ الگ سے دیتی ہے۔ اسی خفیہ رپورٹ کی بنیادپر سکیورٹی ایجنسیاں یا ریاستی حکومتوں کو ضروری قدم اٹھانے کے لئے خبردار کیا جاتا ہے۔ وزارت داخلہ کے سینئر افسر نے بتایا کہ دیش کی اندرونی سلامتی کے لئے آئی بی کی خفیہ رپورٹ بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر دہشت گردانہ سازشوں کو نا کام کرنا مشکل ہے۔ آئی بی اور سی بی آئی جھگڑے کے پیچھے عشرت جہاں مڈ بھیڑ معاملہ ہے جس کی سی بی آئی کے ذریعے جانچ ہورہی ہے ۔ آئی بی نے عشرت جہاں کو دہشت گرد بتایا تھا جس کی وجہ سے اس کو مارا گیا ، یہ رپورٹ غلط تھی۔ آئی بی اپنی بات پر اٹل ہے اور مرکزی وزیر داخلہ عشرت کے آتنکی رشتوں کی جانکاری دینے سے منع کررہے ہیں۔ عشرت جہاں کے آتنکیوں سے رشتے کے جھگڑے کے درمیان وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا کہ وہ اس بات کو نہیں بتا سکتے۔ اس کی وجہ امریکہ کے ساتھ وہ معاہدہ ہے جس کے تحت سرکار ممبئی آتنکی حملے کے بنیادی ملزم ڈیوڈ ہیڈلی سے ملی کوئی اطلاع عام نہیں کرسکتی۔ وہیں سابق داخلہ سکریٹری جی ۔کے۔ پلئی اپنے 2011ء کے بیان سے بدل گئے ہیں۔ عہدے پر رہتے ہوئے عشرت کو لشکر کا آتنکی بتانے والے پلئی اب اسے شبے کا فائدہ دینے کی بات کررہے ہیں۔ تازہ واقعات میں عشرت کے آتنکی ہونے کے بارے میں ہیڈلی کے بیان کو چھپانے کی این آئی اے کی کوششوں کو آئی بی نے ہوا نکال دی ہے۔ آئی بی کے ذریعے لیک کئے گئے 3 اکتوبر 2010 ء کو آئی این اے کے ایک دستاویز کے مطابق 2005ء میں لشکر طیبہ کے آپریشن سربراہ ذکی الرحمان لکھوی کو مزمل سے ملوایا تھا۔ لکھوی نے مزمل پر طنز کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ لشکر طیبہ کے بڑے کمانڈر ہیں جس کے سارے معاملے ناکام ہوگئے ہیں اور عشرت جہاں سازش ان میں ایک تھی۔ این آئی اے کا کوئی بھی افسر اس دستاویز کے بارے میں بولنے کو تیار نہیں ہے۔ منگلوار کو گوہاٹی میں سابق داخلہ سکریٹری جی۔ کے۔ پلئی اپنے پرانے بیان سے پلٹ گئے ہیں۔ اس کے مطابق عشرت کے آتنکی ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے لیکن ساتھ مارے گئے 3 لوگ لشکر طیبہ سے ٹریننگ یافتہ آتنکی تھے اور عشرت ان کے ساتھ دیش کے کئی حصوں میں گئی تھی۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کے تینوں آتنکی عشرت کو ایک ڈھال کی شکل میں استعمال کررہے ہوں گے۔ عشرت کے آتنکی ہونے کی بات کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ اسکی گہرائی سے جانچ ہونی چاہئے۔ یہاں دو سوال ہیں عشرت کیا آتنکی تھی؟ دوسرا کیامڈ بھیڑ فرضی تھی؟ ہم فرضی مڈبھیڑ پر توزور دے رہے ہیں لیکن عشرت کی اصلیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی وزارت داخلہ نے مبینہ مڈبھیڑ میں ماری گئی عشرت اور اس کے تین ساتھیو ں کو لشکر کا آتنکی بتایا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ میں اس سلسلے میں باقاعدہ ایک حلف نامہ بھی دیا تھا۔ لیکن سیاسی وجوہات سے دو مہینے بعد وزارت داخلہ نے حلف نامہ بدل کر دوبارہ داخل کیا۔ جس میں آئی بی کی معلومات کو ادھورا بتایا۔ وزارت داخلہ عشرت جہاں کو آتنکی بنانے سے مکر گئی ہے۔ آئی بی پر غلط جانکاری دینے کا الزام لگا دیا ۔ بتایا جارہا ہے کہ پچھلے ایک مہینے سے وزارت داخلہ کو آئی بی کی خفیہ وارننگ رپورٹ نہیں ملی ہے۔ ایسے میں نہ تو آتنکی سازشوں کا پتہ لگ سکتا ہے اور نہ اس سے نمٹنے کی تیاری۔ اس لئے آئی بی کا حوصلہ بنائے رکھنے کے لئے ملک کے مفاد میں سرکار کو فوری قدم اٹھانے ہوں گے۔ سی بی آئی کے کردار پر تو پہلے بھی انگلیاں اٹھی ہیں،وہ سرکار کے اشارے پر کام کرتی ہے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے سرکار اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے ملک کے مفاد سے بھی سمجھوتہ کرنے کو تیارہے؟ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے اس بار آئی بی کے خلاف سی بی آئی کا استعمال کررہی ہے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سرکار دیش کی ایکتا اور سلامیت اور سکیورٹی کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟