30 دن بعد بھی کیدارناتھ وادی ویران ہے!

آسمانی آفت سے آئے سیلاب اور قہر سے کیدارناتھ وادی کو تباہ ہوئے پورا ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ ٹھیک16-17 جون کو کیدارناتھ میں تباہی ہوئی تھی۔ ایک مہینہ بعد بھی کیدارناتھ میں ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ اتراکھنڈ کے ایڈوکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ میں یہ تسلیم کیا اور کہا کہ وارننگ کے باوجود توجہ نہیں دی گئی۔ توجہ دی جاتی تو حالات ایسے نہ ہوتے۔ جسٹس اے ۔کے۔ پٹنائک کی بنچ کو سیلاب راحت کاموں پر ریاستی حکومت کی رپورٹ پرغور کررہی تھی۔ جسٹس پٹنائک نے ان کی بات سے اتفاق جتایا اور کہا کہ یاترا جون ماہ میں ہونی نہیں چاہئے۔اسے اگر مئی میں ہی روک دیا جاتا تو اس طرح جان و مال کا نقصان نہیں ہوتا۔ ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل اومیش انیال نے کہا کہ مسافروں کو نکالنے کے کام پورے کرلئے گئے ہیں۔ حالات قابو ہیں لیکن کیدارناتھ وادی ایک مردہ گھر بنی ہوئی۔ کہاں گذشتہ برس ایک معاملے میں کہا گیا تھا کہ پہاڑوں میں تعمیرات نہیں روکی گئی تو تباہی آسکتی ہے۔ آج وہ پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ہے۔ حالانکہ ریاستی حکومت نے یہ نہیں بتایا کے سیلاب میں کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کیدار وادی میں اب تک سینکڑوں مسافروں کی لاشیں دبی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ جنرل کی باتیں سن کر جسٹس اے۔ کے۔ پٹنائک بھی غمزدہ ہوگئے اور کہا کہ گذشتہ برس کیدارناتھ یاترا پر گئے تھے اور بھگوان سے انہوں نے جو مانگا تھا وہ مل گیا۔ یاترا سے لوٹنے کے بعد گھر میں ایک پوتے نے جنم دیا اور وہ دادا بن گئے۔ کیدارناتھ میں قدرتی آفت کے چلتے کتنے لوگ مارے گئے اس کا معمہ شاید ہی کبھی سامنے آئے۔ اترا کھنڈ سرکار اس ٹریجڈی میں پانچ ہزار سے زیادہ کے لاپتہ ہونے کی بات قبول کرچکی ہے لیکن اب تک 127 لاشوں کا ہی دہا سنسکار ہو پایا ہے۔ لاشوں کی تعداد کو لیکر انتظامیہ صحیح پوزیشن نہیں بتا پارہا ہے۔ بچاؤ کے کام کے دوران کیدارناتھ میں ہی 250 سے زیادہ لاشوں کی بات انتظامیہ کی طرف سے کہی گئی تھی لیکن راحت و بچاؤ ٹیم نے وہاں لاشیں نہ ہونے کی بات کہی۔ ٹریجڈی میں لا پتہ ہوئے لوگوں کے رشتے دار اس درد کو بھول پائیں گے یہ ممکن نہیں۔ میرے ایک دوست تیجندر مان جو کرنال میں رہتے ہیں اپنی بیوی ،بھائی اور بھابی کے ساتھ16-17 جون کو کیدارناتھ میں پھنس گئے اور آج تک پتہ نہیں چلا کہ ان کا کیا ہوا۔ سنیچر کو ان کی یاد میں دہلی کے چنمے مشن میں ایک پرارتھنا سبھا ہوئی تھی۔ شریمان سے میں ملا بھی اور تسلی دی لیکن صدمہ انہیں اتنا تھا کے پیر کو خبر آئی تیجندرمان بھی چل بسے ہیں۔ ایسے درجنوں معاملے ہوں گے جہاں لاپتہ لوگوں کے رشتے دار گہری چوٹ کھائے ہوئے ہیں۔ کیدارناتھ میں اب تک کل50 لاشوں کا انتم سنسکار ہوا ہے۔ گوری کنڈ جنگل پٹی میں 43، ہری دوار میں34 کا دہا سنسکارکیا گیا۔ حالانکہ تباہی کے بعد آئے سیلاب میں 250 سے زیادہ لاشیں صرف کیدارناتھ میں دیکھی جانے کی بات پولیس کی طرف سے کہی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کیدارناتھ سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے چشم دید گواہوں نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں لاشیں پڑے ہونے کی بات پولیس و انتظامیہ کو بتائی تھی لیکن اب وہ لاشیں کہاں گئیں یہ معمہ ہی ہے۔ ہندی اخبار ’راشٹریہ سہارا‘ میں راجیش سینگوال کی ایک آنکھوں کی دیکھی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ پیش ہیں رپورٹ کے کچھ حصے: منداکنی (گاؤں) مدھو گنگا سے کیدارناتھ میں آئے قہر کو ایک ماہ ہونے والا ہے اس ایک مہینے میں قدرتی آفت سے تباہ ہوچکے چھوٹے بڑے قصبوں میں زندگی پٹری پر کب لوٹے گی اور یہاں کب آبادی ہوگی ؟ یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں اٹھ رہا ہے۔ کیداروادی میں شردھالوؤں کی شکل میں جانے والے شیو تیرتھ کیدارناتھ پر ہری دوار سے کیدارناتھ تک لاکھوں لوگوں کا گزربسر جڑا ہوا تھا۔ فی الحال یہاں پتھریلی زمین اور بار بار چٹانے کھسکنے کے سوائے کچھ نہیں دکھائی پڑرہا ہے۔ شری نگر سے لیکر کوہار فورٹ تک سڑکیں سنسان ہیں، بازار ویران ہیں۔ سڑکوں سے لگے گاؤں میں بھی ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ گاؤں والوں کی کوئی خیرخبر لینے والا نہیں۔ ایسے سینکڑوں گاؤں میں آج بھی بچے روتے ہوئے، عورتیں سسکتی ہوئی، بزرگ حیرانگی سے دیکھتے دکھائی پڑتے ہیں۔ شری نگر سے رودرپریاگ تک آ جارہی گاڑیوں میں سواریاں نہیں ہیں۔ وادی ویدی مندرکے مشرق میں جس پتھرپر بنا ہوا تھا وہ الکنندا کے آغوش میں ہے۔ رشی کیش، بدری ناتھ قومی شاہراہ رودرپریاگ تک چھوٹی بڑی گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے کھلی ہوئی ہے مگر سڑک پر مزدوروں کے سوا اور کوئی نہیں دکھائی پڑ رہا ہے۔ رودرپریاگ کا بازار سونا پڑا ہے۔ ڈھابے اور ہوٹل والوں کا کہنا ہے 20 دن سے انہوں نے ہزار روپے کا نوٹ نہیں دیکھا ہے۔ پوری کیداروادی میں لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ ندی کی آبی سطح بڑھتے ہی لوگ گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ آسمان سے برس رہی آفت تکلیف دہ ہے۔ اس ایک ماہ میں سڑک کی طرف جانا مشکل ہورہا ہے اچانک دھماکوں کے سبب تباہی ہوئی ہے۔ سڑک کب کھلے ہی کوئی بتاپانے کی حالت میں نہیں۔ تلواڑہ کے آگے کچھ نہیں نظر آتا۔ رائے پور کا بازار سونا ہے۔ آگے کی زندگی کے بارے میں سوچ کربھی محسوس نہیں ہوتا کبھی یہاں سینکڑوں لوگ آتے جاتے تھے۔ اس سے آگے کمیونی کیشن، بجلی ،پانی جیسی بنیادی سہولیات تو گزرے زمانے کی بات ہوگئی ہے۔ اگات منی کے انٹر کالج کے نیچے کھیتوں میں جہاں امرود کا باغ تھا وہاں آج پانی پانی نظرآتا ہے۔ وجے نگر سے آگے گنگا نگر کا برا حال ہے۔ ڈگری کالج کی عمارتوں کو بھی نقصان ہوا ہے۔ یہاں بن رہا ہاسٹل بھی تباہ ہوگیا ہے۔ بی ایڈ میں پڑھنے والے طالبعلم اب کالج نہیںآ پارہے ہیں۔ جہاں کبھی درجنوں مکان تھے وہ اپنے مکان اور سامان سب گنوا چکے ہیں۔ لوگ ترپالوں کے سہارے موم بتی میں راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ چندرا پوری میں تباہی کو دیکھ کر ایسانہیں لگتا کے یہاں کبھی چار پانچ منزلہ عمارتیں رہی ہوں گی۔ ایک ماہ بعد بھی کیداروادی کے حالات جوں کے توں ہیں۔ خراب موسم کے چلتے کیداروادی میں راحت رسانی کے کام بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔بارش کے سبب سبھی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئی ہیں۔ کیداروادی کے لئے گپت کاشی اور پاٹا سے ہیلی کاپٹر اڑان نہیں بھرسکے۔ ضلع انتظامیہ کے مطابق کیداروادی میں اس وقت 58 لوگوں کی ٹیمیں لگی ہوئی ہیں۔ ملبہ لگانے کا کام ابھی شروع نہیں ہوسکا۔ حالانکہ سازوسامان پہنچ چکا ہے۔ گپت کاشی میں نوڈل افسر ہرک سنگھ راوت نے بتایا کہ ان لوگوں کی ایک ٹیم گوری کنڈ بھیجی گئی ہے۔ یہ ٹیم رام باڑہ روانہ ہوگی اور وہاں لاشوں کی تلاش کرے گی۔ بارش کے سبب مشکلیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!