میٹرو میں بنائے گئے ایم ایم ایس پورن سائٹس پر چھائے!

دہلی میٹرونہ صرف دہلی کی شان ہے بلکہ پورے دیش کا ایک بڑا کارنامہ مانی گئی ہے۔ بیرونی ممالک سے بھارت دورہ پر آئیں بڑی بڑی شخصیتیں دہلی میٹرو میں سواری کرتی ہیں لیکن پچھلے دنوں دہلی میٹرو کی ساکھ پر داغ لگ گیا۔ دہلی میٹرو میں ویسے تو سکیورٹی معیارات کا پورا انتظام ہے لیکن کسی نے شاید یہ نہ سوچا تھا کہ ڈبوں کے اندر اس طرح کی حرکتیں بھی ہوسکتی ہیں؟ دہلی میٹرو میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے فحاشی ایم ایم ایس اور ویڈیو کلپس بنائے جانے کا سنسنی خیز معاملہ سامنے آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق میٹرو ریل میں سکیورٹی کے پیش نظر لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمروں سے فحاشی ایم ایم ایس بن رہے ہیں اور انہیں پورن سائٹس پر ڈھرلے سے لوڈ کیا جارہا ہے۔ اب تک قریب13 پورن اور دیگر سائٹس پر میٹرو میں بنائے گئے ویڈیو ڈالے جاچکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ویڈیو کلپس و ایم ایم ایس کو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ بھی چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق نوجوان پریمی جوڑا پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ چلتی ٹرینوں کے اندر بھی فحاشی حرکتیں کرنے سے باز نہیںآتے۔ ایک کلپس میں تو باقاعدہ پنجابی باغ میٹرو اسٹیشن پر حرکتیں قید ہوئی ہیں جس وقت لڑکے لڑکیوں کی بیہودہ حرکتیں دکھائیں تو اس وقت میٹرو میں کسی مسافر کے نہ ہونے کی بات سامنے آئی۔ یہ ویڈیو کلپنگ ڈھائی سے پانچ منٹ کی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے معاملے کے سامنے آنے کے بعد بھی ڈی ایم آرسی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ خیال یہ ہے یہ سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا ہوگا لیکن میٹرو حکام کو اپنے متعلقہ محکمے کی سرگرمیوں کی بھنک تک نہ لگ سکی یا پھرمعاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اس معاملے میں منگل کے روز وومن کمیشن نے میٹرو کو نوٹس بھیج دیا ہے۔ حالانکہ واویلا کھڑا ہونے کے باوجود سی آئی ایس ایف اور میٹرو دونوں اس معاملے سے اپنا پلا جھاڑنے میں لگے ہیں۔ دہلی میٹرو ریل کارپوریشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایم ایم ایس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ معاملے کی جانچ شروع ہوگئی ہے اور ایک ایف آئی آر سائبر کرائم سیل میں درج کرائی گئی ہے۔ اس کا وقت قصورواروں کو صحیح طرح سے سامنے لانا ہے۔ حالانکہ ڈی ایم آر سی کا خیال ہے کہ یہ ایم ایم ایس سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نہیں بنائے گئے۔ میٹرو کے رابطہ عامہ کے ورکنگ ڈائریکٹر انوج دیا ل نے سی آئی ایس ایف پر الزام مڑھتے ہوئے کہا کہ وہ میٹرو ریل میں سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی جانچ ایجنسی سے کروارہے ہیں تاکہ میٹرو کے کسی افسر کو قصوروار ٹھہرایا جاسکے۔ وہیں سی آئی ایس ایف کے ترجمان ہیمندر سنگھ کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا کنٹرول میٹرو کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپ لوڈ کی گئی ویڈیو کلپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہیں موبائل کے ذریعے شوٹ کیا گیا ہے۔ یہ بیحد چونکانے والا معاملہ ہے۔ تکنیک کا استعمال قومی سلامتی کے لئے ہونا چاہئے لیکن اس کا استعمال عورتوں کی عصمت پر حملہ کرنے میں ہورہا ہے۔ اس طرح کی حرکتوں سے عورتوں کے میٹرو میں سفر کرنے پر خدشات پیدا ہوں گے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ان نوجوان جوڑوں کو روکا کیسے جائے؟ صرف سختی سے یہ کام ہوسکتا ہے اور قصورواروں کو پکڑا جائے اور سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس طرح کی حرکت نہ ہو ورنہ بدنامی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟