بدعنوانوں کو سبق سکھانے کا ایک صحیح طریقہ یہ بھی ہے

بھارت میں کرپشن کو ختم کرنے میں سیاسی پارٹیوں اور سرکاری مشینری کی ناکامی ایک بڑی مثال شفافیت انٹرنیشنل کے سالانہ سروے کے ذریعے پھر سامنے آئی ہے۔ اس سروے میں 70 فیصد ہندوستانیوں نے مانا ہے کہ کرپشن بھارت میں پچھلے دو سالوں سے بڑھا ہے۔ 68 فیصدی ہندوستانیوں کا خیال ہے کرپشن کو لیکر سرکار کی منشا پر انہیں بھروسہ نہیں ہے جبکہ62 فیصدی لوگ بلاگ ڈھنگ سے مانتے ہیں کہ انہیں سرکاری اجازت اور خدمات کے عوض میں رشوت دینی پڑتی ہے۔ سروے میں شامل بھارت کے 86 فیصدی لوگ سیاسی پارٹیوں کو سب سے زیادہ کرپٹ مانتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کرپشن کی اس ہائے توبہ کے ماحول میں عام لوگوں کا تصور بدلنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرنے کے بجائے ہماری سیاسی لیڈر شپ اس سچائی کو بے شرمی اور ہیکڑی کے ساتھ مسترد کرتی رہی ہے۔ کرپشن یعنی بدعنوانی سے کیسے نپٹیں؟ اس سوال کا جواب چین نے دیا ہے۔ ریلوے کی تاریخ میں دنیا کی سب سے بڑی کامیابیوں میں جس ایک ریل منتری کا نام درج ہے وہ ہے 2011 ء تک چین کے ریل منتری رہے لیو تھیون۔ انہیں چین کی عدالت نے کرپشن کے الزام میں قصوروار پایا اور انہیں موت کی سزا سنا دی۔ وزیرکی ساری ذاتی پراپرٹی پہلے ہی ضبط کی جاچکی ہے اور ان کے سبھی سیاسی اختیارات ضبط کئے جاچکے ہیں۔ 8 سال چین کے ریل منتری رہے تھیون کے ہی عہد میں چین نے تبت ریلوے کو اپنی منزل تک پہنچایا اور بلٹ ٹرینوں کے معاملے میں چین دنیا میں نمبر ون بن چکا ہے۔ ان کے سخت انتظامیہ کے تو قصے سنے جاتے ہیں لیکن ایک ہائی اسپیڈ ٹرین حادثے کے بعد شروع ہوئی جانچ نے نہ صرف انہیں اس حالت میں پہنچایا بلکہ چین میں ریل وزارت نام کی چیز ختم کردی گئی ہے۔ چین میں کوئی ماڈل ریاست کا سسٹم نہیں ہے۔ وہاں بھی میڈیا میں سوال اٹھ رہا ہے کہ لیوتھیون کے پاس 16 کاریں، 350 فلیٹ، 18 رکھیل ہیں۔ یہ جاننے کے لئے چین کے خفیہ محکمے کو ایک ٹرین حادثے کا انتظار کیوں کرنا پڑا؟ ایک ہمارا دیش ہے کہ ہمارے ریل منتری پر کھلے عام کرپشن کے الزامات لگے ہوئے ہیں اور جانچ ایجنسی سی بی آئی نے بنیادی ملزم کو ہی سرکاری گواہ بنا لیا ہے۔ ویسے تو دیش میں کرپشن کے معاملے آزادی کے بعد سے سامنے آنا شروع ہوئے لیکن گزرے برسوں میں حکمرانوں میں چوری اور سینہ زوری کا ٹرینڈ کھلے عام دکھائی دینے لگا ہے۔ موجودہ سرکار کی بات کریں تو کرپشن کے معاملوں میں اس کے کچھ ایک منتری جیل جا چکے ہیں اور بہت سوں کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس دوران ایسے بھی گھوٹالے سامنے آئے ہیں جن کی گنتی کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کیسے مضبوط ثبوت کے باوجود آخری دم تک سرکار ملزمان کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہے۔ چین میں لیوتھیون پر کرپشن اور عہدے کا بیجا استعمال کر بھاری بھرکم دولت اکھٹی کرنے اور عیاشی کے الزامات ہیں۔چین میں قتل اور کرپشن کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد کے لئے پھانسی ہے مگر بھارت میں کرپشن کیلئے جتنی بھی سزا کی سہولت ہو وہ کسی بڑے شخص کو نہیں مل پاتی کیونکہ یہاں کارروائی کرنے والوں سے بچانے والوں کے ہاتھ اکثر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟