الہ آباد ہائی کورٹ کی ذات کی سیاست پر روک لگانے کی دوررس کوشش!
ووٹ بینک کی سیاست پر عدالت نے سخت حملہ کیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے سیاسی پارٹیوں کی ذات پات کی ریلیوں پر روک لگادی ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے داغی لیڈروں پر سخت فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس امرناتھ سنگھ اور مہندر سنگھ دیال کی الہ آباد بنچ نے عرضی گزاروں کی اس دلیل کو مان لیا جس میں کہا گیا تھا ذات پات کی ریلیاں آئین کے خلاف ہیں اور یہ سماج کو بانٹنے کا کام کرتی ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کا اثر دیش بھر میں ہوسکتا ہے۔ اسے بنیاد بنا کر دوسری ریاستوں کی ہائی کورٹ میں بھی اسی طرح کی عرضیاں داخل کی جاسکتی ہیں۔ ایسے میں باقی ریاستوں میں ذات پات کی ریلیوں پر بھی اسی طرح کے حکم آسکتے ہیں۔ذات پات کی ریلیوں پر روک کی قومی سیاسی پارٹیوں نے کھل کر نہ صحیح لیکن اسے اپنے لئے وردان اور بڑے سیاسی فیصلے لینے کے لئے مینڈیٹ ضرور مان رہی ہیں۔ اترپردیش ، بہار، تاملناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک، جھارکھنڈ و مہاراشٹر میں علاقائی پارٹیوں کا زبردست دبدبہ ہے۔ چناوی سیاست میں ذات پات ہمیشہ سے ایک اہم اشو رہا ہے۔ سماجی طور پر سنگین مسئلے کی شکل میں موجودہ ذات کی علامت پارٹیاں چناؤ میں جیت یقینی بنانے کا ذریعہ بناتی ہیں۔ یوپی میں حکمراں سماج وادی پارٹی، اپوزیشن بہوجن سماج پارٹی دونوں نے کچھ مہینو ں میں براہمن ریلیوں کا انعقاد کیا۔ ان کے علاوہ سیاسی پارٹیوں نے علاقائی ریلی اور ویشے سمیلن جیسے ناموں سے کئی برادریوں کو لیکر ریلیاں کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ملائم سنگھ یادو کی رہنمائی والی سماج وادی پارٹی پسماندہ ذاتوں کا دبدبہ والی پارٹی مانی جاتی ہے۔ وہیں بسپا کی مایاوتی کی سربراہی والی درجہ فہرست ذاتوں والی مانی جاتی ہے۔ وہیں بھاجپا سورن اور ہندو کی پارٹی مانی جاتی ہے جس میں بڑی ذاتیں اور ویشوں کا زور ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ جیسی پارٹیاں بھی ہیں جو قبائلی سیاست کرتی ہیں۔ بہار میں نتیش کمار کی جنتا دل (یو) انتہائی پسماندہ طبقہ خاص کی حمایتی بتائی جاتی ہے۔ بہار کی ہی آر جے ڈی جس کے سپریموں لالو پرساد یادو ہیں،وہ درمیانے اور پسماندہ طبقوں کی حامی مانی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ80 لوک سبھا سیٹوں والے اترپردیش میں ذات پات تجزیوں کے چلتے گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں بھاجپا اور کانگریس دو بڑی قومی پارٹیاں حاشیے پر ہیں اور ریاست کے اقتدار میں دو علاقائی پارٹیوں سپا۔ بسپا میں بٹی ہوئی ہے۔ چاہے نام کرن ہو یا مورتیاں لگوانے کی مہم یا پبلک چھٹیوں کا اعلان۔ یوپی میں نیتاؤں نے ووٹ بینک لبھانے کا ہر جتن کیا ہے۔ منڈل کمنڈل کے دور سے پروان چڑھا یہ ابھیان اب شباب پر ہے۔ ان برادریوں کی بہتری سے بہت مطلب نہ رکھا گیا ہو لیکن علامتی ٹوٹکوں کے ذریعے ذات پات کی لو خوب جلائے رکھی۔ بھیم راؤ امبیڈ کر کو محض دلتوں کا لیڈربنانے کی مہم بیشک پرانی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ان کو محض دلتوں کا مسیحا بنایا جارہا ہے۔ ذات کے گورو تلاشنے کا ابھیان پچھلی ڈیڑھ دہائی سے تیزی سے چلا۔ سماجی تحریکوں میں اہم کردار نبھانے والے چھترپتی شاہو جی مہاراج، نارائن گورو جوتی بابا پھولے وغیرہ کو ذات سے جوڑ کر یادکرانے کی کوشش ہوئی ہے۔ ان کے نام یادگاریں ،پارک اور مورتیاں بنائی گئیں اور کئی اسکیمیں اور ضلعوں کا نام بدلا جانا بھی ذات کو دھیان میں رکھ کر مہاپرشوں کے نام پر رکھا گیا۔ سپا سرکار نے بسپا کے راج میں بنے چھترپتی شاہو جی مہاراج ضلع کو پھر امیٹھی کا نام دے دیا۔ بسپا نے کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی بھی چھتر پتی شاہو جی کے نام پر رکھ دی۔ سپا سرکار نے اسے بھی بدل دیا۔ براہمنوں کو لبھانے کے لئے بھگوان پرشورام جینتی اور سندھیوں کو لبھانے کے لئے میری چند کے نام پر چھٹی بھی ہوگئی۔ پچھڑے طبقوں کے لئے وشوکرما جینتی، ویشے سمودائے کے لئے اگرسین جینتی، کائستھوں کے لئے چترگپت جینتی کی چھٹیاں مقرر ہوئیں۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ویسے تو اترپردیش کی سیاست تک محدود ہے لیکن اس کا اثر دیگر ریاستوں پر بھی پڑے گا۔ قومی پارٹیوں کو چنوتی دے رہیں تمام علاقائی پارٹیوں کی اصلی طاقت علاقائی ذات۔ تجزیہ یا علاقائی عقیدت کے جذبات پر بنا ماحول ہے۔ دونوں ذاتی کافی اہم کردار میں ہیں۔ یوپی اور بہار میں ذات پات تجزیوں سے متاثرہ پارٹیوں نے بھاجپا اور کانگریس کو تو سکوڑ دیا ہے وہیں لیفٹ پارٹیوں کو بھی تقریباً باہر کردیا ہے۔ جنوبی کی ریاستوںآندھرا پردیش، کرناٹک، تاملناڈو و کرناٹک ،کیرل میں علاقائی پارٹیوں کی طاقت کافی حد تک ان کی لیڈرشپ کرنے والے لیڈروں کی اپنی ذات ہے۔ لوک سبھا کی300 سیٹیں ایسی ہیں جہاں ذات پات کے تجزیوں کی وجہ سے ہی علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ ہے۔ یہ فیصلہ کتنا موثر ڈھنگ سے لاگو ہوتا ہے یہ وقت بتائے گا۔ چناوی موسم میںیہ پارٹیاں اس کا بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گی۔ ممکن ہے ذات پات کی ریلیاں سماجی تنظیموں کی طرف سے ہوں ۔ کل ملاکر یہ ایک دوررس انتہائی اہم فیصلہ ہے لیکن اسے نافذ کرنا اتنا ہی مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں