اب لڑائی بھاجپا بنام کانگریس نہیں لڑائی ہے مودی بنام کانگریس

نریندر مودی کے بڑھتے قدموں سے جہاں بھاجپا پھولی نہیں سما رہی ہے وہیں کانگریس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔ بھاجپا کا برانڈ بن چکے نریندر مودی کو بھاجپا گھر گھر پہنچانے میں جٹ گئی ہے۔ اس کے لئے طے کیا گیا ہے کہ بھاجیومو(بھاجپا کا یوتھ وینگ) کے ورکر مودی کی فوٹو چھپی ٹی شرٹ پہنیں گے۔ بھاجپا یوا مورچہ کے پردھان انوراگ ٹھاکر کے مطابق اس مرتبہ ایک کروڑ نوجوانوں کو پارٹی سے جوڑنے کا نشانہ رکھا گیا ہے۔ اس کے لئے فیس بک، ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا کی مدد لی جائے گی۔ ادھر کانگریس اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ پارٹی کے حملے کا مرکز اب بھاجپا نہیں بلکہ گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی ہیں۔ مودی کو کانگریس مسلسل ایک صوبے کا وزیراعلی اور نیتا بتا کر زیادہ اہمیت دینے سے انکار کرتی رہی تھی، اب اسے مودی کے بیان کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک لائن پر کانگریس اعلی کمان پوری تیاری سے تابڑتوڑ جواب دے گی۔ اشارے صاف ہیں ،بدلے سیاسی حالات میں کانگریس مان چکی ہے اس کے لئے اہم چنوتی مودی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کانگریس اب2014 ء کی لڑائی کو پوری طرح سے سیکورلزم بنام فرقہ پرستی بنا دینے کی حکمت عملی پر کام کررہی ہے۔ مودی کے ہندوتو کارڈ کھیلنے کے بعد کانگریسی متحد اور حکمت عملی کے تحت حملہ کر آنے والے لوک سبھا چناؤ میں یوپی اے سرکار کی کامیابیوں نا کامیوں کے بجائے سیکولرزم کے ارد گرد پوری سیاسی بحث کو مرکوز کرنے کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔ گجرات اسمبلی نتائج کے بعد کانگریس مودی کو لیکر خود کو فکر مند نہیں دکھانا چاہ رہی ہے۔ یہاں تک کے بھاجپا کی جانب سے مودی کو پی ایم عہدے کا امیدوار بنانے کے لئے مسلسل اشارے دینے کے بعد بھی پارٹی اپنی پرانی حکمت عملی پرچل رہی تھی لیکن اب نریندر مودی کانگریس کے نشانے پر نمبر ون بن چکے ہیں۔ ان کی ہر بات کا جواب دیا جائے گا۔ پنے میں ایتوار کو نریندر مودی نے کانگریس پر زور دار حملہ کیا تو جواب میں پیر کو پوری کانگریس سے بھاجپا کی چناؤ مہم کے چیف پر حملہ بول دیا۔ ’کتے کے بچے‘ والے بیان پر اس بار کانگریس کے نشانے پر مودی کا سیکولرزم کا بنا برقع والا بیان ہے۔ نریندر مودی نے ایتوار کوکہا تھا کہ وہ اپنی رہنمائی والی سرکار کے کرپشن و بے قابو مہنگائی کو لیکر کانگریس گہرے سنکٹ میں پھنسی ہوئی ہے لہٰذا ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے بعد ایک بار پھر سیکولرزم والے برقع میں چھپ گئی ہے۔ لیکن اس بار اس کی دال گلنے والی نہیں ہے، لوگ جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ اس بیان کے بعد پہلے دگوجے سنگھ سے لیکر منیش تیواری نے مودی پر فرقہ پرستی کے اشو پر حملہ کیا وہیں بعد میں کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی کے فورم سے میڈیا چیف اجے ماکن اعدادو شمار کے ساتھ گجرات کے وزیر اعلی کے خلاف ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے گجرات کو ہی پچھڑا قرار دے دیا اور دیش سے پہلے اپنے پردیش کو ٹھیک کرنے کی صلاح دی۔ دگوجے نے کہا کہ مودی پہلے اپنے سیکولرزم کو واضح کریں۔ منیش تیواری نے مودی پر تلخ حملہ کیا اور کہا سیکولرزم کے لبادے میں سبھی مذاہب کے لوگ سما جاتے ہیں جبکہ فرقہ پرستی کا برقع علیحدگی پسندی ہے۔ یہ بھارت کے بنیادی اصول سرودھرم سماج کے نظرئے اور علیحدگی پسندی کے درمیان جنگ ہے۔ مودی دیش کے بنیادی نظریئے کے لئے خطرہ ہیں۔ جیسا کے میں نے کہا کہ اب لڑائی بھاجپا بنام کانگریس نہیں بلکہ مودی بنام کانگریس بن گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟