عصمت دری اور قتل میں موت کی سزادامنی وعوام کی مانگ رنگ لائی
جیسا کہ میں بار بار اس کالم میں کہتا رہا ہوں کے دامنی کی قربانی ضرور رنگ لائی گی اس کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ 16 دسمبر کی اس روح کوجھنجھوڑ نے والی اس وار دات نے دیش کو ہلا کر رکھ دیا۔ دہلی کے جنتر منتر پر آج بھی مظاہرے اوردھرنے جاری ہے میڈیا بھی ایک دن خاموش نہیں بیٹھا۔ اس چوطرفہ دباؤ کے کئی اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ تازہ نتیجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے بدفعلی قانون میں بڑی ترمیم لانے والے آرڈیننس کو کیبنٹ نے منظوری دیدی اوراس پر صدرجمہوریہ نے اپنی مہر لگا دی۔ عورتوں کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے اب آسانی سے نہیں چھوٹ سکیں گے بلکہ بدفعلی جیسے گھناؤنے معاملے میں اگر متاثرہ کی موت ہوجاتی ہے یا مرنے حال ہوتی ہے تو ان معاملوں میں قصوروالوں کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ بدفعلی قانون کی تشریح میں ترمیم کرتے ہوئے حکومت نے اس آرڈیننس میں جسٹس ورما کمیٹی کی سفارشوں کی بنیاد پر کئی ترمیما ت کی ہے۔ اس میں بدفعلی کے مجرمان کو تا عمر کی جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے اورتیزاب سے حملہ کرنیوالوں کو بھی 20 سال کی سزا ئے قید ہے اس کے ساتھ آبروریزی کی متاثرہ کو معاوضہ دیئے جانے کی قانونی شق شامل کی گئی ہے۔ مرکزی کبینٹ میں فیصلے لینے کے بعد حکومت نے اس آرڈیننس کو صدرجمہوریہ کو بھیج دیا تھا انہوں نے منظوری بھی دیدی ہے اب جلد ہی سرکار اس کے نفاذ کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ محض 24 گھنٹے کے اندر تیزی سے رونما سرگرمیوں میں آرڈیننس لانے کا فیصلہ ہوا سونیا گاندھی نے جمعہ کی صبح وزیراعظم سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔ تب ہی کانگریس کور گروپ کی میٹنگ ساڑھے پانچ بجے طے ہوئی اور وزراء کو اس کی بھنک تک نہیں دی سرکار کے آرڈیننس لانے جارہی ہے اس کے بعد وزراء کو مطلع کیا گیا اورشام ساڑھے 6بجے وزیراعظم کی رہائش گاہ پر کیبنٹ کی میٹنگ ہوئی جس میں وزیرداخلہ، وزیر خزانہ ، وزیردفاع کیساتھ ساتھ سونیاگاندھی نے بھی آرڈیننس پرجائزہ لیا۔ اور اپنی رضا مندی دیدی۔ سونیاگاندھی نے منموہن سے کہا آپ آرڈیننس لائیے اس سے پارلیمنٹ کی اسٹنڈنگ کمیٹی کی کسی اہمیت پر کوئی سوال نہیں اٹھے گا۔ ہمیں دیش کو بچانے چاہئے کہ سرکار سخت قانون بنانے کے لئے اہل مند ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں اس آرڈیننس کے پیچھے ڈائیونگ فورس اورسونیا گاندھی خود تھی۔ پارلیمنٹ کاسیشن شروع ہونے سے 20 دن پہلے آرڈیننس کافیصلہ سرکار کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے یہ بھی ماننا پڑے گا ورما کمیٹی کی رپورٹ ملنے کے 9 دن کے اندر سفارشیں مان کر سرکار نے مستعدی دکھائی اس کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن سرکار کو نہ گھیر سکے اب 6مہینے کے اندر پارلیمنٹ کو اپنی منظوری دینی ہوگی۔ حکمراں اور اپوزیشن عام رائے بنانی ہوگی۔ جسٹس جے ایس ورما کمیٹی نے ریپ وقتل معاملے میں بھی موت کی سزا سفارش نہیں کی تھی۔ لیکن سرکار نے اس کی اس بات کو نظر انداز کرکے ایک قدم آگے بڑھا دیا۔ 16 دسمبر کے واقعہ کے بعد دیش بھر میں پیدا ناراضگی اور پھانسی کی عام مانگ ترجیح دے کر نہ صرف دامنی کو انصاف دلانے کا کام کیا بلکہ کروڑوں عوام کی مانگ کوبھی پہچانا ہے آگے کا راستہ آسان نہیں کانگریس کو پارلیمنٹ اور سیاسی سطح پر انسانی حقوق تنظیموں سے اوربین الاقوامی دباؤ کاسامنا کرناپڑسکتا ہے۔ ویسے سرکار کوئی نئی بات نہیں کررہی ہے۔ ریپ وقتل کے آبروریز معاملے میں موت کی سزا تو پہلے ہی تھی اگر سرکار اس شق کی بنیاد پر اب معاملہ ختم کردیتی تو اس کا چوطرفہ غلط اثر پڑتا اور سیاسی نقصان بھی ہوسکتا تھا۔ رہا سوال چھٹے ملزم کا تو وہ نابالغ ہے تو ہماری رائے ہے کہ وہ ہرحالت میں موت کی سزا کا حقدار ہے ہماری ذاتی رائے میں جرائم کو اگردوزمروں میں بانٹ دیا جائے تو بالغ کرائم اورنابالغ کرائم کی تو پوزیشن واضح ہوجائے گی چائلڈجوینائل کرائم ہوتے ہیں جو بچے شرارت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گاڑی گھومنے کے لئے یا چاکلیٹ کھانے کے لئے پریس چرایا لیا یا کلاس کی لڑکیوں پر فقرے کس دیئے وغیرہ وغیرہ اب ایک جوینائل ،آبروریزی ،مظالم، قتل کا سوچا سمجھا پلان بنا کر اسے عملی جامہ پہناتا ہے تو نابالغ کرائم نہیں بلکہ بالغ کرائم ہے۔ اوراسے بطور بالغ کرائم کرنے کی ہی سزا ملنی چاہئے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ پتہ نہیں اس سے متفق ہے نہیں ؟ بہرحال سونیاگاندھی اوریوپی اے سرکار اس بات کے لئے مبارکباد کے مستحق ہے کہ انہوں نے عوام کی آواز اورمطالبہ پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں