تیزی سے گرتا اکھلیش سرکار کی مقبولیت کا گراف

جس جوش اور جذبے اور نئی امیدیں لیکر اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی نے اترپردیش اسمبلی میں کامیابی حاصل کی تھی وہ آہستہ آہستہ ہوا ہوائی ہوتی جارہی ہے۔ اکھلیش یادو کی سرکار کی کارکردگی سے آج سبھی مایوس ہیں۔ بالی ووڈ کی کسی فلم کی طرح اپنی ہی کرتوت سے سپا کی ساکھ پر وہاں پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی و نیتاؤں اور ورکروں نے آج اترپردیش کی جنتا کو بری طرح گمراہ کیا ہے اور ان میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ اکھلیش یادو اپنے بزرگ رشتے داروں (تاؤ ۔ چاچا) کے چلتے بالکل ناکارہ ثابت ہورہے ہیں۔ یہ ہی نہیں رہی سہی کسر پردیش کے افسروں نے پوری کردی ہے۔ کرانتی رتھ پر سواری کر مکمل اکثریت حاصل کرنے والے وزیر اعلی اکھلیش یادو خود ایسے سفید پوشوں سے خاصے پریشان ہیں اور ان سے نمٹنے کے ٹھونس راستے تلاش رہے ہیں۔ خبر ہے کہ پارٹی اعلی کمان نے ایسے 800 نیتاؤں سے نجات پانے کا من بنا لیا ہے۔ راشٹریہ لوکدل کے جنرل سکریٹری اور ممبر پارلیمنٹ جینت چودھری نے کہا کہ بسپا اور سپا کے طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سپا میں پریوار واد اور ذات پات کا بول بالا ہے۔ سرکار کی غلط پالیسیوں کے سبب آج اترپردیش ترقی کے معاملے میں دوسری ریاستوں سے پچھڑ رہا ہے۔ ریاست میں قانون و نظام کے حالات بہت خراب ہیں۔ اترپردیش میں کسانوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ان کے مسائل کا حل نہیں ہوپارہا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر سرکار و پارٹی کی گرتی ساکھ سے پریشان ہیں اور پارٹی کی ساکھ کو اپنی کرتوت سے دھبہ لگا ہے۔ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی و نیتاؤں و ورکروں کی فہرست بنانے کی ذمہ داری ملائم سنگھ یادو نے پارٹی کے کچھ سینئر لیڈروں کو دے دی ہے۔ اس میں وزیر اعلی اکھلیش یادو کی قیادت میں پارٹی کے قومی سکریٹری پروفیسر رام گوپال یادو ،شیو پال یادو، محمد اعظم خاں اور کچھ سینئر لیڈروں کی ایک سات رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ کمیٹی نے پارٹی کی ساکھ خراب کرنے کے لئے ناسور بن رہے قریب100 لیڈروں کو اب تک تلاش کیا ہے اور ان پر قبضہ کرنا اور پڑوسی کی زمین قبضہ کرنا اور اس پر اپنا اسکول بنانا، باپ بیٹے کو جھوٹے مقدموں میں پھنسانے کی دھمکی دے کر ان کو مکان بیچنے کے لئے مجبور کرنے جیسے سنگین مقدمات درج ہیں۔ دوسری طرف سپا سرکار اور پارٹی دونوں اترپردیش کی افسر شاہی سے پریشان ہیں اور اب ان کی ردوبدل کا پلان بنایا گیا ہے۔ خود ملائم سنگھ یادو نے پردیش سرکار کو افسرشاہی میں ردوبدل کی صلاح دی ہے۔ لکھنؤ میں ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے ملائم نے کہا قصوروار پائے جانے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پارٹی ورکروں کو ہدایت دی کے وہ افسروں کے تبادلے و تقرری میں دلچسپی نہ لیں اور ان کی چاپلوسی کرنے سے بھی بچیں۔ ملائم سنگھ یادو نے کہا کے افسروں کو یہ غرور ہوگیا ہے کہ سرکار وہ چلا رہے ہیں۔ اعظم خاں نے تو یہاں تک کہہ دیا پردیش کے ایسے ادھیکاری ڈنڈے کے عادی بن چکے ہیں۔ چابک چلتی ہے تو وہ کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کرپٹ اور منمانی کر رہے افسروں پر شکنجہ کسنے کے لئے ورکروں کو سخت کارروائی کرنے کی صلاح دی ہے۔ ملائم نے کہا کہ بسپا سرکارکے کلچر کے افسر بے لگام ہوگئے ہیں اور ان کی ردوبدل ہوگی تب ہی یہ جنتا اور ورکروں کی سنیں گے اور اپنی لیلاؤں سے مکھیہ منتری اکھلیش یادو اپنی سرکار کی گرتی ساکھ کو پردیش کے افسروں کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ پردیش سرکار 100 سے زیادہ ضلع مجسٹریٹوں اور سینئر پولیس افسروں کا تبادلہ کرنے جارہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کے پردیش سرکار نے تقریباً40 ضلعوں کے ضلع مجسٹریٹروں اور اتنے ہی ضلعوں کو اعلی پولیس افسروں کے تبادلے کرنے کی فہرست تیار کرلی ہے۔ ریاست کے کئی ضلع ایسے ہیں جہاں کے ڈی ایم اور ایس ایس پی ایک ساتھ بدلے جائیں گے۔ اگر ایساہوتا ہے تو یہ پردیش کی افسر شاہی کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہوگا۔ جب کئی ضلعوں کے ضلع افسر اور سینئر افسروں کے بستر بوریئے ایک ساتھ بندھنے والے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کے محض افسروں کو ادھر ادھر کرنے سے کیا اکھلیش یادو سرکار کی ساکھ سدھرے گی؟ یہ گراف اتنی تیزی سے نیچے آرہا ہے کے سماجوادی پارٹی نیتاؤں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اب ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو یہ کہنے لگے ہیں کے اس سرکار سے تو بہن جی کی سرکار ہی اچھی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟