مہا کنبھ اورسیاست: سبھی فائدہ اٹھانے کے چکر میں

بدھوار کی رات کو میں ایک ٹی وی مباحثے میں حصہ لینے گیا تھا۔ بحث کا موضوع دلچسپ تھا مہا کنبھ اور سیاست۔ لمبی اور سنجیدہ بحث ہوئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کے الہ آباد میں مہا کنبھ کے اس مہا سمر کوسیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ بحث ہوئی کے کیا مذہب اور سیاست کو الگ تھلگ کردینا چاہئے؟ ایک مذہبی انعقاد کو صرف دھارمک اشو پر ہی توجہ دینی چاہئے۔ حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں اور یہ تصور یا سچائی محض سادھو سنتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہزاروں برسوں سے عیسائیوں اور اسلام کی لڑائی جاری ہے۔ آج جو جہاد چل رہا ہے وہ مولویوں کی دین ہے اور اسلام مذہب کو بچانے کے لئے لڑا جارہا ہے۔ چاہے وہ سکھ کو یا ہندو، مسلمان ہوں یا عیسائی سبھی فرقوں میں مذہب کی خاص اہمیت رہی ہے۔ ویسے میری شخصی رائے میں الہ آباد میں چل رہے مہا کنبھ کو ایک سیاسی اکھاڑا نہیں بنانا چاہئے تھا۔ اس سے اس کا تقدس اور مقصد کچھ حد تک متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن کئی ہندو تنظیمیں جو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتی ہیں جب کروڑوں ہندو ایک جگہ پر اکٹھے ہوں، وشو ہندو پریشد تو خاص طور سے ایسے مواقعوں کا انتظارکرتی رہتی ہے، اس لئے اس نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاجپا کو ہندوتو کے راستے پر لوٹنے کے لئے بگل بجادیا ہے۔ کنبھ میں وشو ہندو پریشد کی مارگ درشن میٹنگ میں بھاجپا پردھان راجناتھ سنگھ نے ہندوتو پر زور دیتے ہوئے ایک بار پھر سے ایودھیا میں رام مندر اشو کو اچھال دیا ہے۔ مہا کنبھ میں سنتوں کے درمیان راجناتھ سنگھ نے کہا کے رام مندر تعمیر رام جنم بھومی پر ہی ہوگی۔ راجناتھ سنگھ نے صاف اشارے دئے بھاجپا ایک بار پھر ہندوتو کی طرف لوٹ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھاجپا کی مجبوری بھی ہے۔ لوگ این ڈی اے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کے اگر بھاجپا نے ہندوتو کو آگے بڑھایا تو فلاں حمایتی پارٹی الگ ہوجائے گی اور فلاں پارٹی این ڈی اے میں شامل نہیں ہوگی۔ میں کہتا ہوں این ڈی اے کا وجود تب ہی بچے گا جب بھاجپا اپنے دم خم پر 180 سے200 لوک سبھا سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں سامنے آئے گی۔ آج حالت یہ ہے کہ بھاجپا کا روایتی ووٹ بینک ٹوٹ چکا ہے۔ اس ووٹ بینک کو پھر سے بحال کرنے کے لئے بھاجپا نے ایک بار پھر ہندوتو کا سہارا لیا ہے۔ رہی بات بھاجپا کے ساتھ جڑنے کی اور ٹوٹنے کی تو میرا خیال ہے کہ آج نہ تو کوئی اشو کی وجہ سے اور نہ ہی اصولوں اور پالیسیوں کی وجہ سے کسی اتحاد میں شامل ہوتے ہیں محض اقتدار کا پھل اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے جڑتے ہیں اور بکھرتے ہیں۔ اگر بھاجپا نمبر ون پارٹی نہیں بنی تو بھول جائے اقتدار میںآنے کا خواب۔ انہیں کوئی اقتدار میں نہیں آنے دے گا۔ سبھی کے پاس اپنے اپنے موقف رکھنے کا بہانا ہوگا۔ فرقہ وارانہ پارٹی سے ہم نہیں جڑیں گے۔ اس لئے اگر بھاجپا کو اقتدار میں آنا ہے تو اپنے دم خم پر 200 سیٹوں کا نشانہ طے کرے۔ جب کانگریس نے دیکھا کے کنبھ تو بھاجپا اور وی ایچ پی نے ہائی جیک کرلیا ہے تو وہ پریشان ہوگئی اس لئے قیاس آرائیاں لگائی جانے لگی ہیں کہ بھاجپا کے راجناتھ سنگھ اور نریندر مودی کی کنبھ یاترا کے بعد کانگریس صدر سونیا گاندھی اور ان کے نائب راہل گاندھی سنگم میں ڈبکی لگانے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ یہ ہی نہیں خبر ہے کہ کانگریس ان سنتوں تک پہنچنے کی کوشش میں لگی ہے جو اب تک بھاجپا اور وی ایچ پی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ویسے کنبھ کی خاص اہمیت ہے۔ برسوں بعد ایسا اتفاق بنا ہے کروڑوں ہندوؤں کے لئے مہا کنبھ میں اشنان کرناکافی اہمیت کا حامل مانا جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے دھارمک سماگم میں بیرونی ممالک سے بھی سینکڑوں لوگ آئے ہوئے ہیں۔ پچھلی بار جب کنبھ ہوا تھا تو اقتدار میں تبدیلی ہوئی تھی لیکن کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اس نقطہ نظر سے اترپردیش سرکار اور میلہ انتظامیہ سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!