ججوں کے نظریئے میں بھی تبدیلی آرہی ہے بیشک آہستہ آہستہ ہی صحیح

یہ خوشی کی بات ہے کہ وسنت وہار گینگ ریپ معاملے میں فاسٹ ٹریک عدالت میں سماعت شروع ہوگئی ہے۔ پہلے دن طالبہ کے دوست نے ویل چیئر پر پہنچ کر اپنی گواہی دی۔ 16 دسمبر کی رات میں ہوئی اس سنگین واردات کا واحد چشم دید گواہ ہے۔ اس کی گواہی انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی۔ ویسے دکھ کی بات یہ ہے کہ لوگوں کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جیسے ہی وسنت وہار گینگ ریپ معاملے کی سماعت شروع ہوئی تو اسی دن راجدھانی دہلی کے علاقے جل وہار میں ایک اور آبروریزی کا واقعہ رونما ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ ساؤتھ دہلی کی عالیشان کالونی لاجپت نگر میں واقع جل وہار میں ایک کیبل آپریٹر نے24 سالہ لڑکی سے اس کے گھر میں گھس کر آبروریزی کی کوشش کی۔ لڑکی نے جب شور مچایا تو ملزم نے اس کے منہ میں پیچ کش گھسادیا اور فرار ہوگیا۔ پولیس نے ملزم انل کمار کو گرفتار کرلیا ہے۔ 16 دسمبر کے واقعے نے لوگوں میں ماحول بدلنے میں مدد کی ہے۔اگرچہ درندوں کی ذہنیت میں تبدیلی نہیں آئی لیکن آہستہ آہستہ جب عدالتوں کا ڈنڈا چلے گا تو آجائے گی۔ ایک اور خوفناک مجرم کو دو دن پہلے جب اس وحشی درندے کو عمر قید کی سزا سنائی جارہی تھی تو اس کے چہرے پر تشویش کا احساس جھلک رہا تھا لیکن منگلوار کو جیسے ہی اسے سزائے موت کا فرمان سنایا گیا تو وہ کانپ اٹھا، اس کے چہرے پر پسینے چھوٹ گئے۔ سیریل کلر کی شکل میں مشہور چندر کانت جھاکو ایڈیشنل سیشن جج کامنی لا نے حیوان قراردیا اور فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جس وحشی پن سے اس شخص نے قتل کی وارداتوں کو انجام دیا اس کے بعد اس میں سدھار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ شخص سماج کے لئے خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ جرائم پیشہ کو سماج میں رہنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ سماج کو تباہ کردیں گے اور یہ ملزم اسی زمرے میں آتا ہے۔ اس واقعے نے پورے سماج کو اجتماعی طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس طرح کے واقعے کے قصوروار کو سخت سزا ملنے کی امید کی جاتی ہے۔ اگر اسے واجب سزا نہیں ملی تو پورے عدلیہ نظام پر سوال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس لا نے کہا اگر اس جرائم پیشہ کو چھوڑدیا گیا تو وہ پھر ایسی واردات کو انجام دے سکتا ہے۔ خیال رہے چندر کانت جھا دہلی میں قتل کی وارداتیں انجام دیتا تھا اور ان کے سر کاٹ کر تہاڑ جیل کے باہر پھینک دیا کرتا تھا۔جس طریقے سے یہ وارداتیں کرتا تھا دراصل وہ پولیس کو وارننگ دیا کرتا تھا۔ اس سے وہ تو پورے سسٹم کے لئے ہی چیلنج بنا ہوا تھا۔ موجودہ معاملے میں جھا نے 2007 ء میں اوپندر نام کے ایک شخص کو قتل کردیا تھا اور اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے تہاڑ جیل کے باہر پھینک دئے تھے۔ قتل کے دو دیگر معاملوں میں بھی اس کی درندگی ایسی ہی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کو مارنے سے پہلے اس کو اذیتیں دی گئیں اور پھر اس کا جسم سے سر الگ کیا گیا۔ غریب خاندان کے لوگوں سے دوستی کر ان کا اعتماد جیتتا تھا اور پھر واردات کو انجام دیتا تھا۔ جسٹس کامنی لا نے تو انصاف کردیا لیکن بالائی عدالتوں کا کیا فیصلہ رہتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے ججوں کا بھی نظریہ بدلہ ہے اور وہ اب شاطر مجرمان کو آسانی سے بچ نکلنے نہیں دیں گے۔ تبدیلی ہر سطح پر ہورہی ہے بیشک آہستہ آہستہ ہی صحیح۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟