جسٹس ورما کمیٹی کی سفارشوں کو لاگوں کرنا ہی دامنی کو سچی شردھانجلی ہوگی

پورے دیش کو نیند سے جگانے والی تحریک اور16 دسمبرجیسے اجتماعی آبروریزی کے واقعے کو مستقبل میں کیسے روکا جائے۔ موجودہ قوانین میں کیا کیا خامیاں ہیں اور ان سے جڑے اشوز پر سجھاؤ دینے کے لئے جسٹس ورما کمیٹی نے اپنی رپورٹ دے دی ہے۔ جسٹس ورما کے آگے کام یہ تھا کہ وہ آبروریزی جیسے معاملوں میں قانونی اصلاحات پر شہریوں اور تمام سرکاری غیر سرکاری اداروں کی تجاویز پر اپنی سفارش سرکار کو سونپے۔ کمیٹی نے630 صفحات کی رپورٹ دے دی ہے اس کمیٹی کے پاس 80 ہزار سے زیادہ تجاویز آئی تھیں۔ کمیٹی کو یہ کام30 دن میں کرنا تھا۔ عام طور پر ایسے کام کے لئے میعاد اور وقت بڑھانے کی روایت ہے لیکن جسٹس ورما نے یہ کا محض29 دنوں میں کردکھایا ہے اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ جسٹس ورما کمیٹی نے عورتوں کے تئیں جرائم روکنے کے لئے اپنی جو تمام سفارشیں دی ہیں وہ صرف یہ ہی بتاتی ہیں کہ کتنا کچھ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اتنی دہائیوں کے بعد بھی قانون میں جھول ہیں۔ یہ صاف ہے کہ اس کمیٹی کی سفارشوں کو پورا کرنے کے لئے پولیس قانون، چناؤ اور جوڈیشیل کارروائی میں اصلاحات کرنی ہوگی۔ یہ ہی نہیں جرائم کے سیاسی کرن سے لیکر پولیس اور عدالتی اصلاحات تک جس طرح سے کمیٹی نے خواتین سلامتی کے لئے درکار ایک بڑی تصویر کھینچی ہے وہ موجودہ حالت کا ایک تجزیہ ہے۔ کمیٹی کو لگتا ہے کے قانون بنانے والوں اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ممبران پر کسی طرح کا دباؤ نہ ہو، اس کے لئے کمیٹی چناؤ اصلاحات کی بھی مانگ کرتی ہے۔ موٹے طور پر کمیٹی نے جوابدہی چاروں سسٹم کے لئے تجویزیں دی ہیں۔ پولیس۔ نیتاؤں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنے۔ آبروریزی کیس درج کرنے میں ناکامی یا تاخیرکرنے والوں پر کارروائی ہو، قانون پر تعمیل کرنے والی ایجنسیاں نیتاؤں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں۔ پولیس ڈھانچے اور کام کرنے کے طریقے میں بہتری ہو۔ سرکار: جلد سے جلد قانون میں ترمیم کرے، بچوں کی اسمگلنگ معاملے میں جوابدہ بنائے۔ عوامی نمائندگان قانون میں ترمیم کی جائے۔ مسلح افواج خصوصی اختیار ایکٹ کا جائزہ ہو۔ عدالت: تیز سماعت اور جلد فیصلے کے لئے ججوں کی تعداد بڑھے لیکن یقینی بنایا جائے کے کوالٹی سے سمجھوتہ نہ ہو۔مہلاؤں کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتیں بنیں۔ عوامی نمائندی : چناؤ لڑنے سے پہلے حلف نامے کی جانچ کریں۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے سرٹیفکیٹ کے بعد ہی نیتاؤں کو چناؤ لڑنے دیا جائے۔ کمیٹی کے سجھاؤ پر پارلیمنٹ میں بحث ہو۔ تجاویز کو لاگو کرایا جائے۔16 دسمبر کے اجتماعی آبروریزی کے واقعے کے بعد مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ کے ذریعے دہلی پولیس کمشنر نیرج کار کی تعریف کرنا بھارت کے سابق چیف جسٹس جے ایس ورما کو راس نہیں آیا۔ انہوں نے کہا جب معافی مانگے جانے کی امید تھی اس وقت پولیس کمشنر کی پیٹ تھپتھپانا سن کر کافی حیرت ہوئی ہے۔ دامنی کی قربانی ضائع نہیں جائے گی۔ یہ عہد ہماری نوجوان پیڑھی نے لیا ہے اور وہ آج تک اس پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ورما کمیٹی نے بھی مانا ہے کہ بدفعلی کے قانون میں اصلاحات کا سہرہ نوجوانوں کو جاتا ہے۔ نوجوانوں میں بیداری کے سبب ہی سرکار کو پہل کرنی پڑی۔ نوجوان دیش کو امید ہے کے انہوں نے پرانی پیڑھی کو سبق سکھایا ہے اور نوجوانوں کو اکسانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی وہ خاموش رہے۔ 16 دسمبر کی اس بربریت والی واردات کے بعد آج دیش بھر میں پیدا ناراضگی کے ساتھ ہی ملزمان کو پھانسی کی سزا کی مانگ کرنے والوں کو ورما کمیٹی کے ذریعے اس کی مخالفت کرنے سے مایوسی ہوئی ہوگی۔ کمیٹی نے ملزم کو موت کی سزا کی سفارش نہیں کی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی یہ سوال بھی بحث میںآگیا ہے کے ایسی سفارش کیوں نہیں کی گئی؟ کچھ لوگ قصورواروں کوکیمیائی تیزاب ڈال کر انہیں نا مرد بنانے کے حق میں تھے۔ ورما کمیٹی نے آبروریزی کے لئے 20 سال تک جیل کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی کی تجویز ہے کے پھانسی لگنے سے تو کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ اگر آبروریزی کے لئے تاعمر جیل کی سزا ہو تو بہتر متبادل ہوگا۔ قانون اور عورتوں کی انجمنوں سے وابستہ واقف کاروں کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے4 بڑی وجوہات لگتی ہیں۔ اس کے ساتھ جانکار یہ بھی مانتے ہیں کے ساری دنیا میں پھانسی کی سزا پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کئی دیشوں نے تو اس پر پابندی بھی لگا دی ہے۔ جو چاربڑی دقتیں سامنے آتی ہیں وہ ہیں ایک تو یہ پھانسی کی سزا ہونے پر عورتوں کے قتل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور پھانسی کی سزا بڑا ڈر تو پیدا کرتی ہے لیکن وحشی لوگوں کو آبروریزی کے بعد مرڈر کرنے کے لئے بھی اکساتی ہے۔ ثبوت مٹانے کے لئے وہ قتل کرسکتے ہیں۔ دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ پھانسی کی سہولت بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہلچل کے برعکس ہے۔ ایک طرف بڑی وجہ مس یوز ہونے کا ڈر ، ریپ کے غلط الزام لگا کر قانون کا بیجا استعمال کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ نابالغ لڑکیوں کے مبینہ محبت کی شادی کے معاملوں میں اغوا اور آبروریزی کا کیس درج ہوتا ہے۔ ایسے معاملوں میں اتنی بڑی سزا دوسرے سوال بھی پیدا کرسکتی ہے۔ آبروریزی و قتل کے معاملوں میں موت کی سزا اب بھی دی جاسکتی ہے لیکن ایک بڑا اشو یہ بھی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں معاملے صدر کے پاس رحم کی اپیل شکل میں پہن جائیں گے تو کون انہیں دیکھے اور سمجھے گا؟ کون کتنی جلدی فیصلہ کر پائے گا؟ لہٰذا اب سرکار کو وہ سبھی قدم اٹھانے ہوں گے جن سے میٹرو شہروں کے ساتھ دور دراز کے علاقوں کی عورتوں کی سلامتی یقینی کی جاسکے؟ اس کے لئے سرکارکو سبھی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے بنانی چاہئے تاکہ پارلیمنٹ میں قانون میں ضروری ترمیم کی جاسکیں ۔ جسٹس ورما کمیٹی کی سفارشوں کو لاگو کرنا ہی دامنی کو اصل شردھانجلی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟