جنرل بکرم سنگھ کا شہید پریواروں کے گھر جانالائق تحسین ہے

ہم بری فوج کے سربراہ جنرل بکرم سنگھ کواس بات کی مبارکباد دینا چاہتے ہیں کے وہ پہلے حال ہی میں ہوئے دو شہیدجوانوں لانس نائک ہیمراج اور لان نائک سدھاکر سنگھ کے گھر پر ان کے رشتے داروں سے ملنے گئے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کے فوج کے سربراہ خود چل کر کسی لانس نائک کے گھر گیا ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینا کے چیف کو جس طریقے سے پاکستان نے ان شہیدوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اس کا جنرل سنگھ کو کتنا دکھ ہے اور غم ہے یہ فوج کے باقی جوانوں کے حوصلے کو بڑھانے کے لئے بھی ضروری تھا۔ مینڈھر سیکٹرکی اس وارادت نے نہ صرف متاثرہ راجدوت ریجمنٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ پورے دیش میں اس کے تئیں ناراضگی ہے۔ دیشوں کی فوجوں میں لڑائی ہوتی ہے ، جنگ ہوتی ہے، ایک دوسرے کے فوجیوں کو مارنا لڑائی میں ہوتا ہے لیکن دشمن کے فوجیوں کے سر قلم کرنا آج کے دور میں قابل قبول نہیں ہے۔ آج سے200 سال پہلے ہوتا ہوگا آج نہیں۔ جنرل سنگھ نے شہیدوں کے رشتے داروں سے نوکری کا وعدہ کیا ہے۔ شہید لانس نائک سدھاکر سنگھ کے خاندان کو اب تک تقریباً65 لاکھ روپے کی مدد دی جاچکی ہے۔ فوج کے ذریعے 44 لاکھ روپے اور ڈیفنس وزیر مملکت جتندر پرساد کے ذریعے 5 لاکھ روپے اور مدھیہ پردیش سرکار کے ذریعے15 لاکھ روپے شامل ہیں۔ اسی طرح لانس نائک ہیمراج کے پریوار کو بھی اقتصادی مدد دی گئی ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان نے شہید جوان کو کندھا بھی دیا اور شہید کی بیوی کے لئے سرکاری نوکری اور خاندان کے لئے اسی گاؤں میں زمین کا پلاٹ اور شہید سدھاکر کی یاد میں گاؤں میں ایک یادگار بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تقریباً اسی طرح کی کئی سہولیات اترپردیش سرکار نے بھی شہید ہیمراج کے خاندان کو دی ہیں۔ ایسا نہیں کے ریاستی سرکاریں اپنی طرف سے شہیدوں کی مدد نہیں کرتیں لیکن جب بری فوج کا سربراہ خود چل کر فوج کی قائم روایت کو توڑ کر ان کے گھروں میں پہنچ رہا ہو تو ریاستی سرکاریں بھی زیادہ سرگرم ہوں گی۔ ان قدموں کا ہمارے بہادر جوانوں کے حوصلے پر بھاری اثر پڑے گا۔ انہیں یہ تو لگے گا کے چلو ہم اگر مارے بھی جاتے ہیں تو پیچھے ہمارے خاندان کو بھیک تو نہیں مانگنی پڑے گی۔ ہمیں دکھ تو اس بات کا ہے سابق فوج کے سربراہ کبھی بھی اس طرح کے معاملوں میں شہیدوں کے گھر نہیں گئے۔ لانس نائک ہیمراج کی شہادت نے مہاراشٹر کے کول گاؤں کے باشندوں کو 12 سال پرانی کہانی یاد دلادی ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کا سپوت ماؤصاحب تلیکر بھی ہیمراج کی طرح شہید ہوا تھا۔ پاکستانی فوج نے گھات لگاکر حملہ کیا اور ماؤ صاحب تلیکرکاسر اپنے ساتھ لے گئے۔ اب اس خاندان کے پاس کچھ ہے تو بیٹے کی یادیں اور ماتم۔ جب ہیمراج اور سدھاکر کے ساتھ ہوئی واردات کی خبر ٹی وی پر آئی تو اس کا خاندان برداشت نہیں کرسکا اور پھوٹ پھوٹ کر روپڑا۔ یہ بات27 فروری2002ء کی ہے۔ اس واقعہ میں پاکستانی فوج نے ہماری سرحد پر گھات لگاکر حملہ کیا اور بم مارے۔ یہ بھارتیہ فوجی شہید ہوئے۔ ماؤ صاحب نے جوابی حملہ کیا اور ان کے بھی پانچ فوجی مار گرائے لیکن پھر اپنی جان گنوادی۔ حملہ آوروں میں الیاس کشمیری بھی تھا۔ اسی نے ماؤ صاحب کا سر کاٹا تھا اور ساتھ لے گیا تھا۔ مشرف نے اسی کشمیری کو پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی دیا تھا۔ اس وقت الیاس کشمیری فوج میں تھا۔ کشمیری آج خطرناک آتنک وادی ہے۔ ماؤ صاحب کی بہن میناکشی کہتی ہیں تابوت لایا گیا تو ماں نے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کی ضد کی۔ فوج والوں نے کہا کیسے مانیں کے اس میں انہیں کا بیٹا ہے۔ انہیں سمجھایا گیا کے اس کا آئی کارڈ اور گھڑی پاس ہی ملی تھی۔ہمارا من تب تھی نہیں مان رہا تھا۔ انہوں نے تابوت سمیت لاش کا انتم سنسکار کردیا۔ انہیں فوج نے قریب12 لاکھ روپے دئے تھے۔ ان پیسوں سے تو میناکشی کی شای کی، گھر ٹھیک ٹھاک کرالیا۔ وٹھل سدا شیو کہتے ہیں کے12 سال میں تلیکر خاندان کا دکھ سکھ پوچھنے فوج کا کوئی بھی آدمی نہیں آیا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کیا شہیدوں کے خاندان کی خیر خبر صرف بھوک ہڑتال کرنے کے بعد ہی لی جائے گی؟ ہیمراج کے خاندان نے غصہ دکھایا تو فوج اور سرکار ان کے گھر پہنچ گئی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟