کیا کلیان سنگھ اپنا پرانا کرشمہ دوہرا پائیں گے؟

اترپردیش کے سابق وزیر اعلی و سرکردہ لیڈر کلیان سنگھ ایک بار پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی پناہ میں آگئے ہیں۔ پیر کو ان کی جن کرانتی پارٹی (راشٹروادی) کا باقاعدہ طور پر انضمام لکھنؤ میں اٹل شکھانند ریلی میں ہوگیا۔ریلی میں کلیان کے بیٹے راجیویر سنگھ نے اس کا اعلان کیا۔ حالانکہ دل بدل قانون کے سبب کلیان سنگھ خود ابھی بھاجپا کی ممبرشپ نہیں لے سکتے۔ ریلی کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت میں کلیان سنگھ نے کہا میں ابھی بھاجپا کی ممبر شپ نہیں لے رہا ہوں ، مجھے ایسا کرنے کے لئے پہلے لوک سبھا کی ممبر شپ سے استعفیٰ دینا ہوگا، اس سے ضمنی چناؤ کی حالت بنے گی جو غیر ضروری ہے کیونکہ2014 ء میں عام چناؤ ہیں۔ بھاجپا کے ساتھ آئے کلیان نے جے شری رام کے ساتھ جے ہنومان کا بھی نعرہ دیا۔ ’بھارت ماتا کی جے ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ بیحد جذباتی ہوگئے اور کہا کہ میری ارتھی بھی بھاجپا کے جھنڈے میں لپٹ کر جائے۔ کلیان سنگھ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اترپردیش میں پارٹی کے کلیان کی امیدیں ہیں۔ کلیان کی دوسری بار بھاجپا میں واپسی کے پیچھے کچھ حد تک مرکز میں بھاجپا کا دبدبہ بنائے رکھنے کے لئے بھی حکمت عملی کام کررہی ہے۔ ایک طرح سے یہ بھاجپا میں وزیر اعظم کے امیدوار کے دعویداروں کی پیش بندی ہے جنہیں کلیان سنگھ کے کندھوں کی درکار ہے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کلیان سنگھ کے آنے سے بھاجپا کی اترپردیش میں لوک سبھا کی سیٹیں بڑھیں گی اور مرکز میں سرکار بنانے کا موقعہ ملنے پر اترپردیش کے بھاجپا نیتا وزیر اعظم کے عہدے کے لئے دعوی مضبوطی سے پیش کر سکیں گے۔ دوسری طرف کلیان سنگھ کا مقصد اپنے بیٹے راجویر سنگھ کو سیاست میں قائم کرنا بھی ہے۔ پیر کو راجویر نے اسٹیج سے بھاجپا ریلی کو بھی خطاب کیا۔ 2014 لوک سبھا چناؤ میں اترپردیش کی اہمیت رہے گی۔ 2004ء میں چناؤ میں اترپردیش کی وجہ سے ہی بھاجپا پٹی تھی۔ بھاجپا کے ایک قومی لیڈر کا کہنا ہے کے گجرات میں جتنی بھی لوک سبھا سیٹیں ہیں بھاجپا اترپردیش میں اس میں زیادہ سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ابھی بھی ہے۔ کلیان سنگھ کے آنے سے اس میں اضافہ ہوگا۔ ریلی میں بھاجپا کے نئے پردھان بننے جارہے راجناتھ سنگھ نے کہا کے پارٹی نے کم سے کم50 سیٹیں جیتنے کا نشانہ طے کیا ہے۔ اگر ہم اترپردیش میں 50 سے زیادہ سیٹیں جیت گئے تو مرکز میں این ڈی اے کی سرکار بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ جواب میں کلیان سنگھ نے کہا ہم تو پہلے ہی 60 سیٹیں جیت چکے ہیں۔ ان کا اشارہ1998 ء کی طرف تھا۔ کیا بھاجپا کلیان سنگھ کو واپس لاکر ایودھیا اشو کو پھر سے ابھارنا چاہتی ہے؟ ایودھیا تنازعے کی تاریخ کے اکیلے نیتا کلیان سنگھ ہیں۔ جنہیں سپریم کورٹ نے متنازعہ ڈھانچہ گرانے کے بعد حلف نامہ داخل نہ کرنے کا قصوروار پایا گیا تھا اور انہیں سزا بھی ملی تھی۔
سوال یہ ہے کے کیا اپنی دوسری پاری میں کلیان سنگھ اپنا پرانا کرشمہ دوہرا پائیں گے؟ وہ دو بار وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ 10 بار یوپی کے ممبر اسمبلی رہ چکے ہیں۔بھاجپا سے ناراض ہوکر کلیان سنگھ نے 1999 ء میں اپنے17 ویں جنم دن پر راشٹریہ کرانتی پارٹی نام سے ایک نئی جماعت بنائی۔ پھر کچھ عرصے تک وہ ملائم سنگھ یادو سے بھی جڑے۔ 2002ء کے اسمبلی چناؤ اور کلیان سنگھ اور بھاجپا نے الگ الگ چناؤ لڑا تھا۔ یہ وہی چناؤ تھا جہاں بھاجپا کا یوپی میں گراف گرنا شروع ہوا تھا۔ سیٹوں کی تعداد177 سے گھٹ کر88ہوگئی۔ پردیش کی 403 سیٹوں میں سے72 پر کلیان کی کرانتی پارٹی نے دعویداری ٹھوکی تھی۔ انہی سیٹوں پر بھاجپا کو سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!