آخر کار آر ایس ایس کو اڈوانی کے سامنے جھکنا ہی پڑا!

بھارتیہ جنتا پارٹی کا صدر کون ہوگا آخر یہ فیصلہ ہوہی گیا۔ اس کی تو کسی کو امیدبھی نہیں تھی۔ نتن گڈکری کو دوسری میعاد ملناطے تھی۔ آر ایس ایس نے تو ایک طرح سے باقاعدہ اعلان بھی کردیا تھا لیکن سنگھ اور گڈکری خیمے نے بھاجپا کے سپریم لیڈر لال کرشن اڈوانی کو نظر انداز کیا۔ اڈوانی جی نے ایسا چکر چلایا کہ سنگھ اور گڈکری دونوں چکر کھا گئے۔ منگلوار کی رات نتن گڈکری کو دوسری میعاد ملنا طے تھی لیکن پہلے مہیش جیٹھ ملانی نے اعلان کردیا کے وہ گڈکری کو بلا مقابلہ پردھان نہیں بننے دیں گے۔ شام ہوتے ہوتے یہ خبر آئی کے بھاجپا کے سینئر لیڈر یشونت سنہا نے اپنا امیدواری کا پرچہ بھرا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کے وہ بھی چناؤ لڑنے کے موڈ میں تھے۔ گڈکری خیمے کے تیور تو منگل کی رات کو ہی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ رہی سہی کثر بدھوار کی صبح پوری ہوگئی جب خبر آئی گڈکری کی پورتی کمپنی میں ممبئی، پنے سمیت 9 مقامات پر انکم ٹیکس محکمے نے چھاپے مارے۔ ان چھاپوں نے آر ایس ایس کو بھی مجبور کردیا اور نئے صدر کی تلاش شروع ہوگئی۔شری لال کرشن اڈوانی پہلے دن سے ہی گڈکری کو دوسری میعاد دینے کے خلاف تھے اور وہ اسکے لئے اپنے موقف پر آخر تک ڈٹے رہے۔ وینکیانائیڈو، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، سشما سوراج کا نام بھی آیا لیکن ان کے ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور رات8 بجے طے ہوا کے گڈکری استعفیٰ دے دیں۔9 بجے مسٹر راجناتھ سنگھ پر اتفاق رائے ہوا۔ 9:15 بجے گڈکری نے استعفے کا اعلان کردیا اور اس طرح راجناتھ سنگھ بھاجپا کے نئے پردھان چن لئے گئے۔ خاص بات یہ ہے اس سارے معاملے کا پہلو یہ ہے کہ خود آر ایس ایس کو لال کرشن اڈوانی کے سامنے آخر کار جھکنا ہی پڑا۔ آخری وقت میں نتن گڈکری کی دوبارہ تاجپوشی رکوا کر اڈوانی نے ثابت کردیا ہے کہ وہ آج بھی بھاجپا کے سب سے طاقتور لیڈر ہیں۔ دراصل پورتی گروپ پر تمام الزام لگنے کے بعدبھی سنگھ اپنے چہیتے گڈکری کی دوبارہ تاجپوشی کے لئے اڑا ہوا تھا لیکن اڈوانی کی دلیل تھی گڈکری پر شبہ کی انگلی اٹھ جانے کے بعد انہیں دوبارہ پارٹی کی کمان نہیں سونپی جاسکتی۔ وہ بھی تب جب بھاجپا یوپی اے سرکار کے کرپشن کے معاملے اٹھاتی رہی ہے۔ سنگھ گڈکری کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا۔ مجھے یاد ہے کے جب اروند کیجریوال نے پہلی بار پورتی گروپ میں مالی گھوٹالے کا معاملہ اٹھایا تو سنگھ نے اسے کاؤنٹر کرنے کے لئے گورومورتی سے جانچ کرواکر گڈکری کو کلین چٹ دلوادی تھی۔ مگر اڈوانی اس سے متفق نہیں ہوئے اور آخر کار اڈوانی کی ہی جیت ہوئی ہے۔ اپنے عہد میں نتن گڈکری کوئی بھی ایسی چھاپ نہیں چھوڑ سکے جس سے کہا جائے کے سنگھ نے ان کی تقرری صحیح کروائی تھی۔ ان کو سیاسی تجربہ بھی قومی سطح کا نہیں تھا۔ مہاراشٹر سرکار میں یہ وزیر تھے لیکن اس سے آگے نہیں بڑھے۔ ہاں ایک صنعت کار تھے اور پیسہ اکٹھا کرنا جانتے تھے اور شاید یہ ہی سنگھ چاہتا بھی تھا۔ نتن گڈکری کے عہد میں کرناٹک میں پوری پارٹی ٹوٹی۔ یدی یروپا نے گمراہی کی وجہ سے پارٹی چھوڑی اب راجناتھ سنگھ کے لئے یہ راجیہ چنوتی بن کر ابھرا ہے۔ کرناٹک میں بھاجپا سرکار کو بچانا ، جھارکھنڈ میں پیسے کی طاقت پر جوڑ توڑ کر گڈکری نے سرکار تو بنوادی لیکن اس کا کیا حشر ہوا ،سبھی کے سامنے ہے۔ نتن گڈکری کی قیادت میں بھاجپا نے ہماچل پردیش، اتراکھنڈ میں اپنی سرکاریں گنوائیں اور اتنا اچھا ماحول ہونے کے باوجود گڈکری جنتا میں یہ بھروسہ پیدا نہیں کرسکے کے بھاجپا کانگریس کا متبادل بن سکتی ہے۔ راجناتھ سنگھ نے کانٹوں کا تاج پہن لیا ہے۔ یہ چار سال تک بھاجپا کے قومی صدر کی حیثیت سے کمان اور اترپردیش کے وزیر اعلی رہ چکے راجناتھ سنگھ کی پہچان زمین سے جڑے ہونے کی ہے۔ ایماندار ساکھ والے راج نیتا کی شکل میں جانے جاتے ہیں۔
سیاست میں انہیں ہندوتو وادی نظریئے کے حامی لیڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اترپردیش کے چندولی ضلع کی چکیا تحصیل میں ایک کسان خاندان میں پیدا راجناتھ سنگھ نے اپنا کیریئر بطور سائنس لیکچرار کے طور پر شروع کیا۔ راجناتھ سنگھ کا آر ایس ایس سے بھی تعلق رہا ہے۔ وہ 1975ء میں محض 24 سال کی عمر میں جن سنگھ کے ضلع پردھان بنے۔ بعد میں جن سنگھ کے بھاجپا میں شامل ہو جانے سے پارٹی کے نوجوان لیڈر کی شکل میں ان کا قد تیزی سے بڑھا۔ 2005 سے2009 تک وہ بھاجپا کے قومی صدر کا عہدہ بھی سنبھال چکے ہیں۔ حالانکہ ان کی قیادت میں 2006ء میں پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات میں پارٹی نے کوئی اچھا پردرشن نہیں کیا تھا لیکن 2007 میں بھاجپا نے اتراکھنڈ ۔ پنجاب میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ ساتھ ہی2008ء میں ان کی صدارتی میعاد میں ہی بھاجپا نے ساؤتھ انڈیا کی ریاست کرناٹک میں پہلی بار سرکار بنائی۔ راجناتھ سنگھ کے عہد میں مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں بھاجپا کی شاندار واپسی ہوئی۔ راجناتھ سنگھ کی تاجپوشی ہونے سے قومی سیاست میں اترپردیش کی اہمیت ایک بار پھر سے سامنے آئی ہے۔ لوک سبھا چناؤ کے عین پہلے یوپی کے اس سینئر اور تجربے کار لیڈر کو پارٹی کی کمان سونپے جانے سے صوبے میں بھاجپائی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ سیاسی نبض کی جانکاری رکھنے والوں کا تو یہاں تک اندازہ ہے کے اگر چناؤ میں بھاجپا کی اچھی کارکردگی رہتی ہے تو راجناتھ سنگھ بھی وزیر اعظم کی امیدواری کے دعویدار بن سکتے ہیں۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں اترپردیش ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنے گا۔ ایک طرف بھاجپا اور راجناتھ سنگھ کی سرپرستی میں این ڈی اے ہوگا اور دوسری طرف کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کی رہنمائی میں یوپی اے ہوگا۔ 
بھاجپا کی کافی دنوں سے یہ کوشش چل رہی تھی کے لوک سبھا چناؤ کا مقابلہ یوپی میں سپا ۔بسپا کے پولرائزیشن کو توڑ کر قومی پارٹیوں کے درمیان ہو۔ مانا جارہا ہے کہ راجناتھ سنگھ اور کلیان سنگھ کی واپسی کے ساتھ یوپی میں بھاجپا کو نئی زندگی ملے گی اور پارٹی کو امید ہے کے پارٹی میں پیدا مایوسی کا ماحول ختم ہوگا اور ورکر پورے حوصلے کے ساتھ لوک سبھا چناؤ کی تیاریوں میں جٹیں گے لیکن اس سے پہلے راجناتھ سنگھ کو کرناٹک اور عام چناؤ سے پہلے 9 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ سے نمٹنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟