راہل گاندھی نے اپنے سورگیہ پتا راجیو گاندھی کی یاد تازہ کردی

نیاعہدہ سنبھالنے کے بعد راہل گاندھی نے جے پور کانگریس چنتن شیور میں جو تقریر کی اس نے مجھے سورگیہ راجیو گاندھی کی تقریر ان کے اسٹائل کی جھلک نظر آئی۔ راجیو نے بھی اسی طرح اقتدار کے دلالوں پر سیدھا حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکار جو غریبوں کے لئے خرچ کرتی ہے اس میں مشکل سے15 پیسے ہی اس شخص تک پہنچتا ہے جس کے لئے دیا جاتا ہے۔ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا ہم یہ یقینی کریں گے کے پورا پیسہ جس آدمی کے لئے بھیجا گیا ہے اس تک پہنچے۔ راہل کی قریر بیحد جذباتی تھی اور وہ ورکروں کے دلوں کو چھونے والی زبان میں کی گئی تھی۔انہوں نے دراصل کانگریس تنظیم میں آئی کمزوریوں کو ایک ایک کر گنایا اور انہیں دور کرنے کا پلان بھی بتایا۔ راہل نے پچھلے برسوں میں خود گاؤں گاؤں جاکر جنتا کے دکھ درد کو سمجھا۔ اس لئے جنتا کے مسائل کو سمجھنے میں بھی انہیں کوئی دقت نہیں ہے۔ یہ تقریر تنظیم سے متعلق کانگریسی ورکروں کے گرتے حوصلے کو جگانے کے لئے تھی اور اس نے کافی حد تک کانگریس ورکروں میں ایک نیا جوش و امید ضرور پیدا کی ہے۔ جس طریقے سے راہل کا خیر مقدم ہوا اس سے لگا کے کانگریس پارٹی نے 2014ء کا چناؤ ہی جیت لیا ہو۔ راہل گاندھی کے کانگریس میں نئی ذمہ داری سنبھالنے سے پارٹی میں ہر طرف خوشی کا ماحول ہے لیکن ماں سونیا گاندھی کو ایک انجانا ڈر پریشان کرنے لگا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اقتدار کے اس سیاہ پہلو کا جس میں سونیا نے اپنے کئی قربیوں کو کھوتے ہوئے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے دیش کو بتایا میرے وائس پریسیڈنٹ بننے کے بعد کل رات ماں میرے کمرے میں آئیں ، پاس بیٹھیں اور رو پڑیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اقتدار زہر کی طرح ہے۔ راہل کی تقریر میں اتنے جذبات بھرے ہوئے تھے کہ اسٹیج پر موجود ان کی والدہ سونیا گاندھی، وزیراعظم منموہن سنگھ اور کئی کانگریسی لیڈروں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ راہل نے تنظیم میں آئی برائیوں کی تو بات کی لیکن ان کی بنائی ہوئی یوپی اے سرکار کی عوام مخالف پالیسیوں پر ایک لفظ نہیں بولا۔ نہ تو انہوں نے مہنگائی کیسے دور ہوگی، کرپشن پر لگام کیسے لگے گی،دیش میں بگڑتے قانو و انتظام کیسے چست درست ہوں گے، ان پر ایک لفظ کہا ۔ آخر یہ سرکار بھی تو کانگریس کی ہے۔ راہل گاندھی ہمیشہ سے اس پوزیشن میں رہے ہیں کہ وہ سیدھا وزیر اعظم سے بات کر ان کی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے تھے۔ پھر آج تک انہوں نے کیوں نہیں کیا؟ آگے کیسے کریں گے؟ راہل نے کہا کہ ہمیں40-50 ایسے لیڈر تیار کرنے ہیں جو ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم یا وزیر اعلی بن سکیں۔ ایسے لیڈروں کی تو لمبی قطار پہلے سے ہی کانگریس میں موجود ہے۔ ضرورت تو ایسے لیڈروں کی ہے جو ورکروں کے جذبات کو ان تک صحیح طریقے سے پہنچا سکے۔ آج چاہے وہ کانگریس پارٹی ہو یا بھاجپا، عوامی حمایت اور جنتا سے وابستہ کم رہ گئے ہیں۔ اقتدار کے دلال چاروں طرف دکھائی دیتے ہیں۔ ان اقتدار کے دلالوں کو راہل کیسے دور رکھ سکیں گے، یہ دیکھنا ہوگا۔ راہل کو اپنے منصوبوں کو موثر ڈھنگ سے نافذ کرنے کا موقعہ بھی2014ء کے چناؤ سے پہلے ملنے والا ہے۔ اب سے لوک سبھا چناؤ (2014ء ) کے درمیان اسمبلی چناؤ ہونے ہیں ۔ ان میں کئی ریاستی اہم ہیں جیسے راجستھان، مدھیہ پردیش، دہلی وغیرہ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ان میں کانگریس کی کارگزاری اور ریزلٹ پہلے سے بہتر آتا ہے؟ راہل کے ہاتھوں کمان اور چناوی کمان تو پہلے بھی رہی ہے لیکن بہار ۔اترپردیش میں کانگریس کا کیا حال ہوا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کیا راہل گاندھی کے ساتھ کانگریس کے حکمت عملی سازیا اقتدار میں تبدیلی ہوگی؟ کیونکہ آج کانگریس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ نیتا گن تو ورکروں کی پرواہ کرتے ہیں اور کیونکہ وہ ورکروں سے کٹے ہوئے ہیں اس لئے جنتا کے صحیح جذبات کا انہیں پتہ نہیں چل پاتا۔ راہل کو اس حالت کو بدلنا ہوگا۔ ورکروں سے جہاں تک ممکن ہوسکے سیدھارابطہ قائم کرنا ہوگا۔ ورکروں کی باتیں ان تک بنا نمک مرچ لگے پہنچیں یہ یقینی کرنا ہوگا۔ ویسے تو جے پور کے چنتن کیمپ میں بہت کچھ ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں ان پر بھی بحث کروں گا۔ لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گا کے جے پور کانگریس کے اس چنتن شور میں دو باتیں صاف نکل کر آئی ہیں پہلا کے کانگریس نے 2014ء کے چناؤ کو جیتنے کا مقصد طے کرلیا ہے اور دوسرا کے راہل گاندھی 2014ء میں پارٹی کو اقتدار میں لانے کی پوری ذمہ داری خود سنبھالیں گے۔ آج تک بیشک راہل گاندھی ہمیشہ سے نمبر2 پر تھے لیکن پہلی بار انہوں نے پبلک طور سے عہدہ سنبھالا ہے۔ اس معاملے میں کانگریس نے لیڈ لے لی ہے۔ بڑی اپوزیشن پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی تو دلدل میں پھنسی پڑی ہے نہ تو پارٹی کے چیف پر تنازعہ ختم ہورہا ہے اور2014ء میں کون پارٹی کی قیادت کرے گا یہ تو دور کی بات ہے کم سے کم کانگریس نے 2014ء کے لئے اپنی توجہ مرکوز کرلی ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟