چوروں نے کمال کردیا پنٹون برج کے ٹکڑے ہی لے گئے

چوروں نے تو دہلی میں کمال ہی کردیا ہے۔ گیتا کالونی فلائی اوور بننے کے بعد لوہے کا پنٹون برج کا استعمال بند ہوگیا تھا۔ دہلی سرکار نے اسے اترپردیش کو دینے کا ذہن بنا لیا تھا لیکن اس کی بکری نہیں ہو پائی تھی۔ چوروں نے اس لوہے کے پل کو ہی چوری کرلیا۔ دہلی میں ایسے 42 بنکر ہیں ان کی لمبائی قریب20 فٹ ہے ۔ ان میں پکا لوہا استعمال کیا گیا ہے۔ معاملے کی جانچ کی جارہی ہے۔ رپورٹ درج کرنے میں بھی تاخیرہوئی ہے۔ مانا جاتا ہے جس طریقے سے کام ہوا ہے اس سے لگتا ہے اس معاملے میں محکمے کے افسران کی ملی بھگت ہے۔ جمنا ندی کا پنٹون پل چرانے والوں کو اندر کی خبر ہوگی۔ پل چرانے کے لئے چیف ایگزیکٹو انجینئر کے فرضی کاغذات کا استعمال کیا گیا تھا۔ ان کاغذات میں کسی بھی سرکاری فائل کے لئے ضروری سبھی کارروائی کو پورا کیا گیا تھا۔ اس میں فائل کو بھیجنے کے لئے استعمال کئے جانے والے نمبربھی ڈالے گئے تھے۔ اس کارروائی میں اب شک کی سوئی پی ڈبلیو ڈی کی طرف ہے۔ پنٹون پل معاملے کی جانچ میں لگی پولیس کا کہنا ہے یہ جعلسازی کا کھیل کسی کباڑی کا نہیں، یہ چار پانچ لوگوں کی ملی بھگت سے انجام دیا گیا ہے۔ کباڑی سے لی جانکاری کی بنیادپر پولیس اس سے وابستہ لوگوں کی تلاش میں دہلی، این سی آر میں چھاپہ ماری کررہی ہے۔ گرفتاری ملزم پروین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کے اسے ایک شخص نے کاغذات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس نے یہ خرید لیا ہے۔ اس کے بعد اس نے پروین سے سودا کیا تھا۔ لیکن پولیس ا س شخص کی تلاش کررہی ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس چوری میں مقامی پولیس ملازمین کا کیا رول ہے؟ کیا پل کی کالی کمائی میں مال کی بندرباٹ کا حصہ مقامی پولیس کو بھی جانا تھا؟ ذرائع کے مطابق پنٹون پل کو ٹھکانے لگانے کا کا پچھلے ایک ماہ سے جاری تھا۔ بتایا جارہا ہے کے جس دن کباڑی کی جے بی سی مشینیں اور کٹر جمنا کنارے پہنچے تھے اسی دن گیتا کالونی پولیس کو بھی اس کی بھنک لگ گئی تھی۔ تھانے کے بیٹ کانسٹیبل پیٹرولنگ اسٹاف نے ان مشینوں کے مالک یعنی کباڑی سے ملنے کی بات وہاں موجود مزدوروں اور اسکے ٹھیکیداروں سے کی تھی۔ اس دن کام بند بھی کروادیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اگلے دن بیٹ والوں نے کباڑی پروین سے جمنا کنارے ملاقات کی تھی۔ کباڑی پل خریدے جانے کے فرضی کاغذات بیٹ والوں کو دکھانے کے بعد پولیس والوں کو لوٹادیا تھا۔ مطلب صاف ہے اس کے بعد گیتا کالونی تھانے کے بیٹ کانسٹیبل نے کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ پولیس اور کباڑی کے اس کھیل میں تھانہ پولیس کے علاوہ پی سی آر اور پیرولنگ اسٹاف بھی شامل تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کے پولیس نے پل کاٹنے کے لئے پی ڈبلیو ڈی کے فرضی ورک آرڈر کے بارے میں کسی طرح کی چھان بین نہیں کی۔ جیسا کے میں نے کہا چوروں نے تو کمال کردیا۔ ایسی چوری کا شاید ہی کسی کو تصور رہا ہو۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟