دہشت نہ تو رنگ دیکھتی ہے نہ مذہب سماج کو بانٹنے کی کوشش قابل مذمت
عام طور پر وزیر داخلہ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد شری سشیل کمار شندے نے متوازن بیان دئے ہیں اور متنازعہ بیانوں سے بچتے رہے لیکن اب انہوں نے ساری رہی سہی کثر پوری کردی۔ کانگریس کے چنتن شور کے آخری دن وزیر داخلہ شندے نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی کھلی میٹنگ میں کہہ دیا کہ بھاجپا اور سنگھ کے کیمپوں میں ہندو آتنک واد کا تجربہ کیا جارہا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجدا ور مالیگاؤں دھماکوں کے پیچھے سنگھ کا ہاتھ ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ شندے کے اس بیان نے سیاسی ماحول ہی بدل دیا ہے اور سیاست میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ وزیر داخلہ کا بیان اس لئے بھی سنگین ہے کیونکہ یہ بھارت کے وزیر داخلہ نے دیا ہے۔ شندے بغیر کانگریس ہائی کمان کی مرضی کے ایسا بیان نہیں دے سکتے تھے۔پچھلے کچھ برسوں سے کانگریس کی ووٹ بینک کی سیاست اس کی حکمت عملی کا حصہ بن گئی ہے۔ اقلیتی ووٹ بینک کو کسی بھی قیمت پر اپنی طرف راغب کرنے کے لئے کانگریس کسی بھی حد تک جارہی ہے۔ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کے ان کے بیان سے دیش کے دشمن غیر مناسب فائدہ اٹھائیں گے۔ ہوا بھی یہ ہی۔ دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گردی فہرست میں اول نمبر پر لشکرطیبہ کے چیف حافظ سعید نے شندے کے بیان پر بلا تاخیر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا بھارت ہمیشہ پاکستانی تنظیموں کے خلاف آتنک واد پھیلانے کا گمراہ کن پروپگنڈہ کرتا رہا ہے لیکن اب وہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ زخم پر نمک چھڑکنے کی کسر کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ نے پوری کردی۔ دگوجے سنگھ نے حافظ سعید کو حافظ سعید صاحب کہہ کر پوری کردی۔ یہ بدھوار کی بات ہے۔ کانگریس پارٹی اب دہشت گردی کو مذہب اور رنگ کے حساب سے نشاندہی میں لگی ہوئی ہے۔ آتنک واد کا نہ تو کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ ہی مذہب۔ ہم نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ مسلم آتنک وادی ہیں، ہندو آتنک وادی ہیں، سکھ آتنک وادی ہی، عیسائی آتنک وادی ہیں یا یہودی آتنک وادی ہیں۔ نہ ہی ہم نے کبھی کہا یہ لال رنگ کا آتنکی ہے، ہرے رنگ کا آتنکی ہے، بھگوا رنگ کا ۔ جب کوئی آتنک وادی کسی پبلک مقام پر بم مارتا ہے تو وہ نہیں سوچتا اس بم کے ٹکڑے کسی بچے، عورت، بزرگ یا پھر ہندو ، سکھ، مسلمان، عیسائی کو لگیں گے؟ وہ تو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے تشدد کے ذریعے سے اپنا مقصد پورا کرتا ہے۔ جے پور چنتن شور میں دیا گیا شندے کا بیان اس لئے بھی سنگین بن جاتا ہے کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ بھارت کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے کہا اور یہ بھی دعوی کیا کے ان کے پاس اس کے ثبوت ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر شندے کے پاس اس بارے میں ثبوت ہیں تو کیا وہ اس مبینہ خلاصے کے لئے جے پور چنتن شور کا انتظار کیوں کررہے تھے؟ جب ٹھوس ثبوت ہیں تو ان کی بنیاد پر متوقعہ کارروائی کیوں نہیں کی ؟ اگر واقعی ان کے پاس آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے آتنک واد کو بڑھاوا دینے کے پختہ ثبوت ہیں تو انہیں ضروری کارروائی کرنے سے کس نے روکا؟ بھلے ہی دگوجے سنگھ شندے کے بیان کی حمایت کررہے ہوں اور دیگر کانگریسی لیڈر بھی ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہوں لیکن یہ مان لینا صحیح نہیں ہوگا کے شندے نے جو کچھ کہا وہ حقیقت میں وہ سب صحیح ہوگا۔ کانگریس کے نیتاؤں کو تو صرف بیان بازی کرنے کی جگہ ٹھوس کارروائی کرتے ہوئے دکھائی پڑنا چاہئے تھے۔ اس لئے اور بھی کیونکہ مرکز میں اکیلی ان کی پارٹی والی سرکار ہے۔ اب اگر اس طرح سے سماج کو بانٹنے والے بیانوں کی بنیاد پر اپوزیشن کی گھیرا بندی کی جائے گی اور آنے والے لوک سبھا چناؤ کے لئے ماحول تیار کیا جائے گا تو ایسا لگتا ہے کہ اس بیان کا مقصد بنیادی اصولوں سے عام جنتا کی توجہ ہٹانی ہے۔ ایسے وقت پر جب سرحد پر کشیدگی کے سبب بھارت کو نہ صرف سنگین چیلنج کا سامنا ہے بلکہ دیش کے اندر دہشت گردی اور نکسلواد کے خطرے کہیں زیادہ خطرناک شکل اختیارکرتے جارہے ہیں، وزیر داخلہ کی سطح پر ایسے بیانوں کا جواز ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔ اس کا ہمیں تو محض ایک مقصد صرف اپنے سیاسی مخالفوں کو کٹہرے میں کھڑے کرنے کے علاوہ دوسرا نظر نہیں آرہا۔ سیاست کا معیاراس حد تک گر جائے گا کے جہاں سے بھارت مخالف فائدہ اٹھا سکیں، چنتن تو اس پر ہونا ضروری ہوگیا ہے۔سیاسی الزام تراشیوں کی لچھمن ریکھائیں بھی مٹتی جارہی ہیں۔ یہ نہ تو دیش کے لئے اچھا ہے ،نہ سیاسی پارٹیوں کے لئے اور نہ ہی جنتا کے لئے سماج کو اس طرح سے بانٹنا کبھی بھی صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں