جاپان میں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی اقتدار میں واپسی

جاپان کے امکانی وزیر اعظم شنجو اوبے نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ متنازعہ سینکاکو جزیرے کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ان کی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو ایتوار کو ہوئے چناؤ میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چین نے بھی اوبے کی جیت کو لے کر اپنے لئے وارننگ بتایا ہے۔ پریس کانفرنس میں مسٹر اوبے نے کہا کہ سینکاکو جزیرہ جاپان کا قدرتی خطہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق جزیرے پر جاپان کا کنٹرول ہے اسے لیکر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جزیرے کو چین میں دیاؤں کہا جاتا ہے۔ ادھر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمہ ہواچنچنگ نے کہا ہم اس بات کو لیکر کافی فکرمند ہیں کہ جاپان کس سمت میں جائے گا۔ اس وقت علاقائی واد کے ٹھیک طرح سے نپٹارے کی ضرورت ہے۔ چین سے جاپانی کشیدگی کے درمیان قریب پانچ دہائی تک مسلسل جاپان میں راج کر چکی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی تین سال بعد پھر اقتدار میں لوٹ آئی ہے۔ عام چناؤ میں اسے پارلیمنٹ کے نچلے ایوان کی 480 نشستوں میں سے294 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کی اتحادی یوکومیتاتو پارٹی کو جوڑلیں تو یہ نمبر دو تہائی اکثریت تک پہنچ جاتا ہے۔ ایل ڈی پی کو ملی کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہی رہی کے لوگ یوریہیکونوڈا حکومت اور ان کی ڈیموکریٹ پارٹی آف جاپان سے مایوس ہوچکے تھے۔ ڈی جی پی نے تین سال پہلے اقتدار سنبھالا تو اس نے دو بڑے وعدے کئے تھے۔ ایک یہ کے وہ سیاسی اور کارپوریٹ کو کرپشن کی گٹھ جوڑ کو ختم کرے گی، دوسرے مندی سے لڑ رہے دیش کی معیشت کو پٹری پر لے آئے گی۔ لیکن یہ وعدے ہوا ہی ثابت ہوئے ہیں۔ حکمراں پارٹی کے اندر رسہ کشی اور کئی اس کے لیڈروں پر لگے کرپشن کے الزامات نے پارٹی کی ساکھ کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ پھر معیشت میں بھی کوئی قابل قدر بہتری نہیں دیکھنے کو ملی۔لوگوں کا اس سے بھروسہ اٹھتا گیا اور ایل ڈی پی کو اس کا فائدہ ملا۔ ڈی پی جے محض57 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی۔ بہرحال سابق وزیر اعظم شنگجو اوبے کو ایک بار پھر اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ جاپان کے سب سے منہ پھٹ راشٹروادیوں میں گنے جانے والے شنگجو اوبے نے چناؤ مہم کے دوران ساری توجہ معیشت میں بہتری لانے اور شنکاکو جزیرے پر جاپان کی بالادستی کو برقرار رکھنے پررکھا۔ اس جزیرے کو لیکر چین سے جاپان کی تکرار چل رہی ہے اور دونوں دیشوں کے رشتوں میں اتنی کھٹاس آچکی ہے کہ جتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ معیشت کو مندی سے نکالنے کیلئے اوبے کو کچھ سخت فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں جیسے درآمدات کو سنبھالنے کے لئے جاپانی کرنسی کو کچھ توازن میں لانا۔ لیکن اقتصادی چیلنجوں سے پار ہوپانا اس کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ جاپانی آبادی میں بزرگوں کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ پنشن کی مار بھی پڑ رہی ہے۔ چین سے جاپان میں آئے کشیدہ ماحول سے اوبے کیسے نمٹتے ہیں یہ بھی ایک چیلنج ہوگا۔ پچھلے عہد میں شنجو کا رویہ بھارت کے ساتھ قربت بڑھانے کا تھا اس لئے ان کی جیت پر بھارت میں قابل اطمینان ردعمل ہوا ہے۔ اگرچین اور جاپان کے رشتوں میں گراوٹ آتی ہے تو بھارت کس طرف جھکے گا؟ یہ آگے دیکھنے والی بات ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟