امریکہ میں کیوں ہوتا ہے بار بار شوٹ آؤٹ؟

دنیا بھر میں جب بھی باپ اپنے بچوں کواسکول بھیجتے ہیں تو اس بھروسے کے ساتھ کے اسکول میں تو بچہ کم سے کم پوری طرح محفوظ ہے۔ لیکن جب اسکول میں ہی کوئی بڑا حادثہ ہوجائے تو ان کے دکھ کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب امریکہ کے مشرقی صوبے کنیکٹیکر کے ایک پرائمری اسکول میں والدین نے اپنے بچوں کو بھیجا ہوگاتو شاید ہی انہوں نے کبھی سوچا ہوگا کہ اس دن ان کے اوپر قہر ٹوٹ پڑے گا۔ وہ بچے کبھی اسکول سے گھر نہیں لوٹیں گے۔ یہ سوچ کر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس بد نصیب دن کنیکٹیکر کے نیو ٹاؤن میں واقع سینڈی کک ایلمنٹری اسکول کے نرسری میں زیر تعلیم بچے صبح 9 بجے ایک نامعلوم حملہ آور نے گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اس میں 27 لوگ مارے تئے جن میں 20 بچے بھی شامل تھے۔ امریکہ کی تاریخ میں اسے اب تک کا سب سے بڑا قتل عام مانا جارہا ہے۔ اس واردات سے پورا امریکہ سہما ہوا ہے اور غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ مارے گئے لوگوں کے غم میں امریکی قومی جھنڈا آدھا سرنگوں ہے۔ حملہ آور کے پاس 9 ایم ایم کی دو بندوقیں تھیں۔ اسکول میں اس وقت قریب700 بچے تھے۔ حملہ آور لڑکے کی ماں اسکول میں ٹیچر تھی۔ اس دن سر پھرے نے کلاس روم میں گھس کر پہلے اپنی ماں کو مارا اور پھر18 بچوں کو بھون دیا۔ بعد میں اس نے دیگر7 لوگوں کو مار ڈالا اور پھر خود کو بھی گولی مار لی۔ لڑکا کسی بات سے ماں پرناراض تھا۔ حملہ آور24 سال کا تھا۔ مرنے والوں میں اسکول کی پرنسپل بھی شامل ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر براک اوبامہ بھی رو پڑے۔ اس واقعہ سے دیش کو کافی دھکا لگا ہے اور ایسے واقعات کو روکنے کے لئے قدم اٹھانے ہوں گے۔ ہمارا دل مارے گئے بچوں کے والدین اور ان کے بھائی بہنوں کے لئے پسیج گیا ہے۔ ہم افسوس کا اظہارکرتے ہیں۔ وقت سے پہلے ان کا بچپن چھن گیا ، ان لوگوں کا درد کچھ بھی کہنے سے کم نہیں ہوسکتا۔ بڑا دکھ اور تشویش کا باعث یہ ہے کہ امریکہ میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حملہ آور کا نام ایڈم لانجا بتایا گیا ہے۔ فائرنگ کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر طلبا اور اساتذہ سمیت اسٹاف کی سکیورٹی کے لئے امریکی اسکول کئی طرح کے سخت سکیورٹی پیمانے اپنا رہے ہیں۔ باوجود اس کے اسکولوں کو ایسے واقعات کو روکنے میں ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے۔ پرائمری تعلیم دینے والے قریب 94 فیصد امریکی اسکول پڑھائی کے دنوں میں بڑے دروازے پر تالا لگا دیتے ہیں تاکہ کوئی بغیر اجازت کمپلیکس میں نہ گھس سکے۔ اسکولوں میں نگرانی کے لئے سکیورٹی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ پبلک اسکولوں میں سکیورٹی گارڈوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔ یہ ہی نہیں ہتھیاروں کے بڑھتے استعمال کے پیش نظر دیش میں میٹل ڈٹیکٹر لگادئے گئے ہیں۔ تمام سکیورٹی پیمانے اپنانے کے بعد بھی امریکی اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔10 فروری2012 کو نیو ہیمپشائر کے 14 سالہ لڑکے ہنٹر میک نے بال پول پرائمری اسکول کے کیفٹیریا کی چھت سے کود کر گولی مار لی تھی۔ اس کے دو ہفتے بعد17 سالہ میلین نے بے سہارا لوگوں کے ہائی اسکول میں تابڑ توڑ گولیاں چلائیں جس میں دو کی موت ہوئی۔ 16 اپریل 2007ء کو22 سال کے ایک سر پھرے نے اسٹوڈنٹس جیٹری میں 32 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم متاثرہ والدین کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے دکھ میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟