بھاجپا ہاری نریندر مودی جیتے۔۔۔1
لوک سبھا چناؤ کا سیمی فائنل مانا جارہاگجرات کا اسمبلی چناؤ کے مقابلے میں نریندر مودی ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔ بیشک گجرات اسمبلی چناؤ میں 2007 کے مقابلے بھاجپا کو دو سیٹیں کم ملی ہوں، لیکن اس سے نریندر مودی کی ساکھ کو کوئی نقصان ہونے والا نہیں۔ شری نریندر مودی کی سیاسی زندگی میں یہ سب سے سخت مقابلہ تھا۔ وہ ساری دنیا کے سوڈو سیکولرسٹ سے تو لڑ رہے تھے لیکن اس مرتبہ ان کی لڑائی پارٹی کے اندر سے بھی تھی۔ کیشو بھائی پٹیل ، آر ایس ایس، کانگریس سبھی نے مل کر مودی کو ٹھکانے لگانے کا جو پلان بنایا وہ اوندھے منہ گرا اور مودی نے سب کو پچھاڑ کر ثابت کردیا ہے کہ ہندوتو اور ترقی یہ دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ مودی پر سب سے بڑا الزام ہندو کٹروادی ہونے کا لگتا تھا اور اقلیت مخالفت بھی۔ اس چناؤ نے اسے بھی غلط ثابت کردیا ہے۔ عالم یہ رہا کہ سیکولرزم کی پیروکار کانگریس کو زیادہ تر مسلم اکثریتی سیٹوں پر ہی مات کھانی پڑی۔ گجرات اسمبلی چناؤ کی تقریباً ڈیڑھ درجن سیٹیں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہیں جہاں مسلم آبادی 12 سے 24 فیصد تک ہے۔ کانگریس کے سرکردہ لیڈر احمد پٹیل کو اپنے آبائی شہر بھروچ کی 5 سیٹیں بھاجپا نے جیت لی ہیں۔ اقلیتوں کا بھروسہ جیتنے کے لئے مودی نے ریاست میں سدبھاؤنا اپواس کے ساتھ کئی یاترائیں کی تھیں۔ ترقی کو اشو بناتے ہوئے انہوں نے انہیں ساتھ چلنے کی بھی دعوت دی تھی۔ حالانکہ انہوں نے کسی مسلم کو چناؤ میں ٹکٹ نہیں دیا۔ کانگریس نے صرف چار اقلیتی ممبروں کو ٹکٹ دیا تھا جس میں سے دو جیتے۔گجرات کے مسلمانوں نے مودی کا ٹریک ریکارڈ بھی دیکھا ہے۔ گودھرا کانڈ کو چھوڑ دیں تو گجرات میں کبھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا اور نہ ہی کسی طالبہ کے ساتھ اس طرح سے آبروریزی ہوئی جیسی دیش کی راجدھانی دہلی میں ہوئی۔ گجرات کے مسلمان دیش کی دیگر ریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہیں انہوں نے سوچا ہوگا کہ ٹھیک ہے نریندر مودی بیشک ہٹلر ہوں ،تاناشاہ ہوں لیکن ہم اس کی چھتر چھایا میں محفوظ تو ہیں۔ ہم نے اپنے خاندان کو پال پوسنا ہے اور اچھی طرح سے رہ سکتے ہیں۔ مودی کی جیت میں عورتوں کا خاص کر اشتراک رہا ہے۔ مودی کے عہد میں13 فیصدی عورتوں کی پولنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ نوجوانوں کو مودی اس لئے بھا گئے کیونکہ انہیں ایسا حکمراں چاہئے جو دبنگ ہو دبو نہیں۔ کانگریس کو لگا تھا کہ کیشو بھائی پٹیل کے چناؤ میں کودنے سے لڑائی سہ پارٹی ہوجائے گی اور بھاجپا کا ووٹ کٹے گا۔ ووٹ شیئر تو گھٹا ہے لیکن لڑائی سے مودی کا کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ انہیں دو سیٹیں کم ملی ہیں۔ مودی نے دیگر پچھڑی ذاتوں پر خاص توجہ دی۔ جنوبی گجرات کی قبائلی برادریوں کے لئے اثر دار افسران کے ذریعے سے ترقیاتی پروجیکٹوں کو نافذ کراکر پہلے سے ہی ان میں جگہ بنا لی تھی۔ کانگریس نے اپنے پچھلے چناؤ سے سبق سیکھا ہے۔ مثال کے طور پر اس بار راہل گاندھی کوآگے نہیں لایا گیا۔ بہار۔ اترپردیش کے تلخ تجربے سے اس نے سبق لیا ہے اور لڑائی مودی بنام راہل نہ ہونے دی لیکن ٹکٹ کا بٹوارہ دہلی سے راہل کی منڈلی نے ہی کیا تھا اور نرہری امین، راول اور ساگر جیسے سرکردہ لیڈروں کو ٹکٹ نہ دیکر ناراض کرلیا اور یہ اپنے حمایتیوں کے ساتھ مل کر کانگریس کے امیدواروں کو ہی ہروانے میں لگ گئے۔ ایک غلطی دوہرائی جارہی ہے۔ اس بار بھی کانگریس نے اپنی پارٹی کے کسی ایسے لیڈر کو بطور وزیر اعلی پروجیکٹ نہیں کیا جو بھروسے مند اور عوام کے لئے قابل قبول ہو۔ دوسری طرف بھاجپا کے اعلان امیدوار نہ صرف طاقتور تھے بلکہ وزیر اعظم کی شکل میں پروجیکٹ کئے گئے تھے۔ کانگریس نے نہ تو سکیورٹی معاملے میں اور نہ ہی اقتصادی ترقی پر ووٹروں میں مودی کے خلاف ماحول بنانے میں جارحانہ رخ اختیار کیا۔ لگتا ہے کہ گجرات میں تمام حکمت عملی بنانے کے باوجود کانگریس ہار مان کر چل رہی تھی۔ وہ اس کہاوت پر زیادہ توجہ دے رہی تھی کہ ’ہارا ہوا ووٹ فیصد گنتا ہے ،جیتا ہوا کامیاب سیٹیں گنتا ہے‘ ہماری رائے میں اگر ایک لائن میں اس چناؤ کا نتیجہ نکالا جائے تو ہم کہیں گے کہ بھاجپا ہاری ، نریندر مودی جیتا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں