ہندو تیرتھ استھلوں میں بنیادی سہولیات کی کمی

ہم سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ہندو دھارمک استھلوں کی درشا پر نوٹس لیا ہے۔ عدالت کی جسٹس بی ایس چوہان ، جسٹس سوتنتر کمار کی ڈویژن بنچ نے جموں و کشمیر سرکار سے کہا ہے کہ وہ پنچترنی میں واقع امرناتھ کی پوتر گپھا تک سیمنٹ کی بنی ہوئی ٹائل بچھائی جائے تاکہ راستے میں تیرتھ یاتری پھسل نہ سکیں۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ تیرتھ یاتریوں کو پہاڑوں سے نیچے گرنے سے بچانے کے لئے لوہے کی چین پر مبنی کھمبے لگائے جائیں۔ ججوں نے کہا آپ کو ایسا کچھ کرنا ہوگا جس سے لوگ پھسلیں نہیں۔ پنچترنی سے گپھا تک کے راستے کو محفوظ کیا جائے۔ امرناتھ یاتراکے دوران سہولیات کی کمی میں تیرتھ یاتریوں کی موت کی خبروں کا عدالت نے خود ہی نوٹس لیا ہے۔ اس سال امرناتھ یاترا پر قریب 621145 تیرتھ یاتری گئے تھے ۔ اس دوران 93 تیرتھ یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ امرناتھ بابا کی یاترا میں دوہرا خطرہ ہوتا ہے۔ آتنک وادی حملے کا خطرہ اور دوسرے موسم کی مار لیکن اگر بنیادی سہولیت کی بھی کمی ہوتو یہ انتہائی افسوسناک ہی مانا جائے گا۔ ہر سال امرناتھ یاترا کے دوران کئی لوگوں کے مارے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حالانکہ سکیورٹی وغیرہ کے پیش نظر اس یاترا میں شامل ہونے والوں کا پہلے ہی رجسٹریشن کرلیا جاتا ہے۔پھر مرحلے وار جتھے روانہ کئے جاتے ہیں۔ شردھالوؤں کی سہولت کا خیال رکھتے ہوئے جموں و کشمیر سرکار اور امرناتھ شرائن بورڈ پورے راستے میں قیام و طعام و طبی سہولت کا انتظام کرتا ہے لیکن پھر بھی ہر سال کچھ تکلیف دہ واقعات ہو ہی جاتے ہیں۔ بلکہ ہر سال مرنے والوں کی تعداد کچھ بڑھ بھی جاتی ہے۔ امرناتھ یاترا پر جانے سے پہلے مقرر ہسپتال سے ہیلتھ سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اس کے لئے اترپردیش ، راجستھان، ہریانہ، پنجاب، چنڈی گڑھ ، ہماچل حکومتوں سے مدد مہیا کرانے کو کہا ہے۔ یہ ریاستیں امرناتھ یاترا کے دوران اپنے ڈاکٹر بھیجیں گی اور مسافروں کو سرٹیفکیٹ مہیا کرانے کے لئے ہسپتال کی نشاندہی کریں گے۔ اس سسٹم سے امرناتھ یاترا کے دوران ہونے والے حادثوں پر لگام لگنے کی امید بندھی ہے۔ دراصل یہ یاترا مشکل اور پیچیدہ راستوں سے ہوکر گزرتی ہے ایسے میں برفیلی آندھی، تیز بارش یا کسی افراتفری کی حالت میں لوگوں کے پھسل کر گہری کھائی میں گھر کر دم توڑ دینے کے واقعات عام ہیں۔ میں اکثر دھارمک یاتراؤں پر جاتا رہتا ہوں۔ ماتا وشنو دیوی میں انتظام اچھا ہے۔ دوسا میں چنڈی پور کے بالا جی مندر میں اس کے سامنے سڑک برسوں سے ٹھیک نہیں بن سکی۔ بارشوں میں یہاں گھٹنوں تک پانی بھر جاتا ہے میں نے وزیر اعلی سے لیکر دونوں متعلقہ ممبران سے بھی رابطہ قائم کیا لیکن آج تک یہ سڑک نہیں بن پائی۔ دو برس پہلے میں گنگوتری گیا تھا۔ وہاں نہ تو بجلی کا صحیح انتظام تھا اور نہ ہی پانی کا۔ کڑاکے کی سردی میں ہمیں لال ٹین تھمادی گئی۔ آج تک وہاں جرنیٹر تک کا انتظام نہیں ہوسکا۔ تین مہینے پہلے میں کدارناتھ یاترا پر گیا تھا حالانکہ یہ راستہ مشکل اور خطروں بھرا ہے لیکن یہاں راستے میں سہولیات ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پہاڑوں میں ایک مشکل ضرور پیش آتی کہ وہاں کافی بارش اور برف پڑتی ہے اور کوئی بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہم کوشش ہی نہ کریں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!