جنتا کاغصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے عارضی اورغیرموثر سرکاری قدم

دیش کو ہلاکررکھ دینے والی آبروریزی کی وار دات کے بعد جاگی حکومت نے راجدھانی میں ایسے واقعات کو روکنے کے لئے کچھ اقدامات کو اٹھانے کااعلان کیا ہے لیکن ان کے پیچھے قلیل المدتی فکر کے بجائے عام جنتا کی ناراضگی کو خاموش کرنے کی جلد بازی زیادہ دکھائی پڑتی ہے اس میں پرائیویٹ بسوں میں ڈرائیونگ کو شفاف بنانے سے لے کر دہلی میں پی سی آر کی تعداد بڑھانے اور انہیں جی پی ایس سے آراستہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔وزارت داخلہ اور دہلی پولیس کے سینئر افسران کے ساتھ طویل غوروخوض کے بعد وزیرداخلہ سشیل کمار شنڈے نے پارلیمنٹ میں ان اقدامات کااعلان کیا ہے سرکار فائر فائٹنگ زیادہ دکھائی دے رہی ہے بہ نسبت سنجیدگی سے احساس ترین اشو کو لے کر کارگر ڈھنگ سے سلجھانے میں ۔ چونکہ اس واردات میں استعمال بس میں کالے شیشے اور پردے لگے تھے اس لئے دہلی میں پرائیویٹ بسوں اور کمرشیل گاڑیوں میں کالے شیشے اور پردے لگانے پر روک لگادی گئی ہے۔قاعدے کے مطابق واردات کے وقت اس بس کو مالک کے پاس ہونا چاہئے تھا۔ لیکن یہ ڈرائیور کے پاس تھی اس لئے یہ تمام بسوں کااستعمال روکنے کی ذمہ داری اب بس مالکان پر ڈال دی گئی ہے۔ چلتی بس میں ہورہے جرائم کو روکنے میں پی سی آر وین کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے رات میں ایسی بسوں میں لائٹ جلائے رکھنے کی بھی ہدایت جاری کی گئی ہے فوری اقدامات سے ذرا آگے بڑھتے ہوئے وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے کاکہناہے کہ راجدھانی میں چل رہی سبھی بسوں کے ڈرائیور اورہیلپروں کا دہلی پولیس ویری فکیشن کرے گی۔ اس کے بغیر چلنے والی بسوں کو ضبط کرلیا جائے گا۔ سڑکوں پر دہلی پولیس کی موجودگی بڑھانے کے لئے اس کے بیڑے میں پی سی آر وین کی گاڑیاں بڑھائی جائے گی ۔اس اقدامات سے غیرمطمئن بھاجپا کے سینئر لیڈر وینکیا نائڈو نے کہاہے کہ سرکار نے بے ہودہ کرتوتیوں کو موت کی سزا دلانے کے لئے کیا قدم اٹھائے ہے؟ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قصور واروں کو موت کی سزا دینے کامطالبہ کیا گیا تھا اس کے جواب میں شندے نے گزشتہ 4 دسمبر کو لوک سبھا میں پیش ہوئے جرائم قانون ترمیم بل کااحوالہ دیا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ لوک سبھا میں پیش مجرمانہ قانون ترمیم بل2012 میں بھی آبروریزی کرنیوالوں کو موت کی سزا دینے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے اس میں زیادہ تر عمر قید کی سزا ہے اب وہ بھی تیزابی حملہ کیا گیا ہو یا اتوار کی رات والی متاثرہ کی طرح مار مار کر ادھ مرا کردیاگیا ہو اجب جب آبروریزی کاواقعہ ہوتا ہے تو تب تب آبروریزی کرنے والے کو موت کی سزا کی مانگ ہوتی ہے اور سرکار کی طرف سے بیان آتے ہیں کہ حکومت سخت سے سخت قدم اٹھائے گی پیچھے کئی مرتبہ جب بھی مجرمانہ قانون میں ترمیم ہوئی ہے اس کے نٹ بولڈ ہی کسے گئے لیکن انگریزوں کے زمانے کے انڈین بینل کورٹ 1860میں کچھ خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ گزشتہ 4دسمبر کو لوک سبھا میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے ذریعہ کرمنل لاء ترمیمی بل 2012میں جرائم پیشہ کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی تو بات کہی گئیں ہے لیکن موت کی سزا کی ہمت شندے بھی پیدا کرپائے ہمیں دکھ سے کہناپڑتا ہے کہ سرکار فائر فائٹنگ زیادہ کررہی ہے بہ نسبت اس اہم ترین سنگین مسئلہ کا کارگر ڈھنگ سے نپٹانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں دکھارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟