الزام درالزام نہیں، ایسے واقعات کو کیسے روکا جائے؟

دیش کی راجدھانی دہلی میں ایک مرتبہ پھر وحشی پن کی سبھی حدیں پارکردی گئی ہیں کیونکہ قریب پانچ درندوں نے چلتی بس میں ایک فیزیوتھیریپسٹ ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی۔ لڑکی اور اس کے دوست کو لوہے کی چھڑوں سے بے رحمی سے پیٹا گیا۔ واردات ایتوار کی رات کی ہے اس دن دہلی کی سڑکوں پر دوڑتی بس میں دو گھنٹے تک یہ درندگی کا تماشہ چلتا رہا۔ نشے میں دھت یہ لوگ بعد میں لڑکی اور لڑکے کو چلتی بس سے پھینک کر فرار ہوگئے۔ لڑکی اس وقت صفدرجنگ ہسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے۔ اس وحشی پن کی واردات نے سبھی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آخر یہ سلسلہ کبھی رکے گا یا نہیں؟ اس سال 8 واقعات اسی طرح کے سامنے آچکے ہیں۔ زندگی اور موت سے لڑ رہی متاثرہ لڑکی ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد پانچ بار بیہوش ہوچکی ہے۔ اسے وقفے وقفے سے ہوش تو آرہا ہے لیکن اس کے سر میں گہری چوٹ آئی ہے جس وجہ سے اس کو23 ٹانکے لگائے گئے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہاں آنے کے بعد اس کی تین بار زندگی بچانے سے متعلق سرجری ہوچکی ہے۔ حالت ابھی بھی نازک بنی ہوئی ہے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اس واردات کے سلسلے میں چار لوگوں کو گرفتار کر گتھے سلجھا لینے کا دعوی کیا ہے۔ واردات کے دو ملزم ابھی بھی فرار ہیں۔ سفید رنگ کی بس میں پیلے پردے اور لال سیٹ اور بس پر یادو لکھا ہوا تھا۔لڑکی کے دوست کے ذریعے دی گئی جانکاری ہی وحشی درندوں کو پکڑوانے میں مددگار بنی۔ پولیس نے ٹرانسپورٹ آفس سے ایسی بس کے بارے میں پتہ لگانے کو کہا لیکن بس کے مالک تک ابھی پولیس پہنچ نہیں پائی۔ بس ڈرائیور سے فون کروایا گیا۔ مالک نے ڈرائیور سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے ،بتانے پر پولیس وہیں پہنچ گئی اور اسے پکڑ لیا۔ ڈرائیور کا نام رام سنگھ ہے۔ سیکٹر تین آر کے پورم میں روی داس جھگی کیمپ میں رہتا ہے۔ ڈرائیور نے پولیس کو بتایا وہ اور اس کے ساتھی شراب کے نشے میں بس کھڑی کرنے جارہے تھے تبھی بس اسٹاپ پر لڑکے لڑکی کو دیکھ کر ان کی نیت بگڑ گئی۔ اب پولیس کو یہ پتہ چلا ہے آبروریزی کرنے والے ملزم شاطر بدمعاش بھی ہیں اور اجتماعی آبروریزی کے واقعے کو انجام دینے سے پہلے ان لوگوں نے ایک کار پینٹر کو بس میں بٹھایا اور پھر اس سے ہزاروں روپے نقدی لوٹ لئے اور اسے آئی آئی ٹی فلائی اوور پر باہر پھینک دیا۔ اب سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کیا جائے؟ دہلی کی وزیر اعلی و دہلی پولیس کمشنر اعلی افسران سے استعفیٰ مانگنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ آخر یہ پولیس کے لئے ممکن نہیں کے وہ ہر بس میں اور ہر سڑک پر موجود رہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ اگر میری بات کو برا نہ مانا جائے تو میں کہوں گا آج جو حالات بنے ہیں اس کے لئے سماج اور عدلیہ وکیل رشتے دار سبھی ذمہ دار ہیں۔ ہر طبقے نے کسی نہ کسی طریقے سے حالات کو بگاڑا ہے۔ جرائم کرکے اگر زیادہ تر جرائم پیشہ افراد بچ نکلتے ہیں تو اس کے لئے صرف پولیس ہی نہیں بلکہ جج اور سرکاری وکیل بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کے کام کاج کے طریقے کی وجہ سے ہی آج بہت کم لوگوں کو سزا مل پاتی ہے۔ اس کے علاوہ عدالتوں سے گواہوں کا بھروسہ بھی اٹھ جانا اور نچلی عدالتوں کے احکامات میں پولیس و کورٹ و ہائی کورٹ کے ذریعے نکتہ چینی کرنے بھی ایک خاص وجہ ہے۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ذریعے مخصوص اختیارات کا استعمال کر چھوٹے چھوٹے احکاما ت میں دخل اندازی سے آج نچلی عدالتیں اپنا بھروسہ کھوتی جارہی ہیں ، اسے جلد روکنے کی ضرورت ہے۔ عدالتوں میں گواہوں کو تکلیف ہوتی ہے ، ان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا،گواہوں کو بار بار عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے اور اگر مقدمے پر کسی وجہ سے کوئی گواہ پیش نہیں ہو تو جج ان کے خلاف وارنٹ جاری کرتے ہیں لیکن ملزم پیش نہیں ہوتا تو وہی جج کچھ نہیں کرپاتے۔ اتنا ہی نہیں جرح کے دوران ملزم یاان کے وکیل گواہ کے کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سزا کم ہونے کے پیچھے جانچ کا غلط طریقہ ، انتہائی لاپروائی سے ثبوت اکٹھا نہ ہونے اور فورنسک لیب کے نمونے کی جانچ میں دیری۔ کئی بار چھ مہینے تک جانچ رپورٹ تک نہیں آتی۔ اس کا ایک صحیح طریقہ ہے فاسٹ ٹریک عدالت شروع کی جائے تاکہ ساری کارروائی چھ مہینے کے اندر پوری ہوجائے۔ عدالت میں محض عورت وکیل پیش ہوں۔ سزا ہونے کے بعد اپیلوں پر بھی پابندی لگنی چاہئے۔ سزاہونے کے بعد اپیلوں میں معاملہ سالوں لٹک جاتا ہے یہ سلسلہ روکنا ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ملزمان میں قانون کا ڈر پیدا کیا جائے۔ اس طرح کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ اگر یہاں قانون کا ڈر لوگوں میں ہو تو شاید ایسے واقعات پر تھوڑی لگام لگ سکے گی۔ آبروریزی کے معاملے میں زیادہ تر ملزمان دیر سویر بری ہوجاتے ہیں اور سزا بھی کافی کم ہوتی ہے۔سرکار کو ایسے لوگوں کو سزا دلانے اور سبق سکھانے کے لئے قانون میں تبدیلی لانی ہوگی۔ آج حالت یہ بن گئی ہے کہ خوف کے سبب عورتیں دیر شام یا رات میں گھر سے باہر ضروری کام ہونے پر بھی نکلنے سے کترانے لگی ہیں۔ عورتوں کی سلامتی کا معاملہ کافی حساس ہے۔ اس میں پولیس کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی بیدار ہونا پڑے گا۔ تکنیک کا استعمال کرنا چاہئے۔ سبھی گاڑیوں خاص کر بسوں میں جی پی ایس لگوا سکتے ہیں۔ اس سے گاڑیوں کی لوکیشن کا پتہ لگ سکے گا۔ میٹرو کی طرز پر گاڑیوں میں سی سی ٹی وی اور الارم کا سسٹم ہونا چاہئے تاکہ بٹن دبانے پر سیدھے پی سی آر کو خبر لگ جائے۔ راجدھانی کے سبھی بس اسٹاپ بڑی سڑکوں، بازاوں اور عمارتوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔ سبھی عمارتوں پر ہائی ریزولیوشن کیمرے بھی لگے ہیں۔ دہلی کے سبھی علاقوں میں لڑکوں اور شہریوں کی سول ڈیفنس فوج تیار کی جائے۔ سرکار کی بھاگیداری یوجنا کے تحت ہزاروں کی تعداد میں ان لڑکوں کو رات میں سڑکو ں پر بسوں اور ٹرانسپورٹ کی نگرانی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ عورتوں کے لئے تجاویز بھی ہیں۔ اپنے موبائل فون سے پولیس ہیلپ لائن کا نمبر سیو کرکے رکھیں، اپنے ساتھ لال مرچ پاؤڈر وغیرہ رکھیں۔کسی طرح کا شبہ ہونے پر فوراً پولیس کو خبر کردیں۔ رات میں آٹو یا ٹیکسی لیتے وقت طے کرلیں کے اس میں پہلے سے کوئی سواری نہ بیٹھی ہو یا اندھیری جگہ سے گزرنے سے پرہیز کریں۔ اجنبی کے ساتھ زیادہ گھلیں ملے نہیں اور نہ ہی ان کے ذریعے دی گئی کھانے پینے کی چیزیں کھائیں۔ ممکن ہو تو رات میں گھر سے اکیلے نکلنے سے بچیں۔ ہو سکتے تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اس کا نمبر نوٹ کر لیں۔ نمبر ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے رشتے دار کو بھیج دیں۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟