ایودھیا کے 95فیصدی لوگ شری رام مندر بنانے کے حامی


ایودھیاکے95فیصدی لوگوں کا خیال ہے کہ مندر مسجد تنازعے کا سیاسی کرن ہوا ہے اور42 فیصد لوگوں نے اس کے لئے کانگریس اور26 فیصد لوگوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ 42فیصدی ایودھیا کے باشندے مندر ۔مسجدتنازعے کا حل قانون کے ذریعے نکلوانا چاہتے ہیں جبکہ40فیصد لوگ بات چیت کے ذریعے اس تنازعے کو سلجھانے کے حامی ہیں۔ 18 فیصد لوگ کسی بھی طرح کا حل نہیں چاہتے۔ سب سے اہم حقیقت جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ایودھیا میں 95فیصد لوگ رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے حق میں ہیں۔لیکن ساتھ ہی 93فیصد باشندے مندر۔ مسجد اغل بغل بنائے جانے کے خلاف ہیں۔ دلی پترکار سنگھ ،اترپردیش جنرلسٹ ایسوسی ایشن کی (ایودھیا یونٹ) اور میڈیا ایسوسی این فار سوشل سروس اور ایودھیا فاؤنڈیشن نے مل کر دو مرحلوں میں ایودھیا کے باشندوں کی رائے جاننے کے لئے پانچ ہزار لوگوں سے بات کی اور فارم بھروا کر یہ سروے کیا۔ پہلے مرحلے کا سروے پچھلے برس اسمبلی چناؤ کے دوران کیا گیا تھا جبکہ دوسرا مرحلہ پچھلے ماہ نومبر میں منعقد کیا گیا۔ 
دلی پترکار سنگھ کی جانب سے جاری ریلیز کے مطابق مندر۔ مسجد تنازعے کا سیاسی کرن کئے جانے کے لئے 42 فیصدی لوگ کانگریس کو اور26فیصدی لوگ بھاجپا کو 16 فیصدی لوگ سماج وادی پارٹی کو اور8فیصدی لوگ مسلم تنظیموں کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ 5فیصد نے وشوہندو پریشد سمیت ہندوتنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ سروے میں 95 فیصد لوگ چاہتے ہیں جہاں رام للا کی مورتی ہے وہیں رام مندر بنایا جائے جبکہ4فیصد لوگ وہاں سرو دھرم یادگار بنانے کے حق میں ہیں۔ 1فیصدی لوگوں نے اس مقام کو لیکرکوئی رائے ظاہر نہیں کی ہے۔ 98فیصدی لوگ متنازعہ جگہ کو رام جنم بھومی استھل مانتے ہیں اور اتنے ہی اس کو عقیدت کا موضوع مانتے ہیں جبکہ 2فیصدی اسے سیاسی اشو مانتے ہیں۔
ہم ایودھیا کے باشندوں کی خواہش کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایودھیا میں ایک عظیم الشان مندر بنے لیکن اس کے لئے اب اور خون نہ بہایا جائے۔ بہت ہوچکا ہے سیاست بھی بہت ہوچکی ہے۔ بہتر ہے کہ سیاسی پارٹیاں چاہے وہ کانگریس ہو یا بھاجپا یا سپا سبھی اس سے دور رہیں۔ شری رام ہندوستانیوں کے دلوں دماغ میں بسے ہوئے ہیں ۔ یہ نہیں کہ ہمارے مسلم سکھ بھائی بھی شری رام کو نہیں مانتے سبھی مانتے ہیں۔ ہم تمام مسلم پیشواؤں اور تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سب ہندو سادھو سنتوں اور ایودھیا کے باشندوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا شری رام مندر بنوائیں۔ رہی بات مسجد کی وہ بھی بنے اور اس میں سبھی ہندو دھرم گورو و تنظیم اور ایودھیا کے باشندے مدد کریں۔ مسجد تھوڑا ہٹ کر بن سکتی ہے کیونکہ مندر کی تعمیر تو اسی مقام پر ہونی چاہئے جو رامن للا کا جنم استھان ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر عدالتیں بھی جلد فیصلہ کریں گی اور یہ اشو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔ جے شری رام۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!