منموہن سنگھ پر استعفیٰ دینے کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے


کیا پردھان منتری منموہن سنگھ اپنے عہدے سے ہٹنے والے ہیں؟رپورٹیں تو کچھ ایسی ہی آرہی ہیں۔جیسے جیسے سرکار مخالف ہوا تیز ہوتی جارہی ہے اور پارلیمنٹ کا کام کاج ٹھپ پڑا ہوا ہے اس سے ڈاکٹرمنموہن سنگھ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ان کے استعفے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ پردھان منتری ان دنوں بیحد دباؤ محسوس کررہے ہیں۔ بھاجپا نے پارلیمنٹ کے اندر ان کے استعفے کا دباؤ بنایا ہوا ہے تو سڑکوں پر انا ہزارے ،اروندکیجریوال اور بابا رام دیو کے حمایتیوں نے منموہن سنگھ اور ان کی سرکار کے خلاف آندولن چھیڑ رکھا ہے۔ جنتا میں منموہن سنگھ اور اس سرکار کی مقبولیت دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور یہ ہی فکر کانگریسیوں کو کھائے جارہی ہے کہ زیادہ تر کانگریسی ارکان پارلیمنٹ اب پردھان منتری منموہن سنگھ کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ کانگریس کے لوگوں میں یہ چرچا عام ہے کہ منموہن سنگھ اتنے بدنام ہوچکے ہیں کہ جنتا میں ان کی مقبولیت زیرو ہوچکی ہے۔سوشل نیٹ ورکوں کے علاوہ گلے چوراہوں، بسوں، میٹروں و چائے پان اور نائی کی دوکانوں پر سرکار کو لیکر جو چرچائیں ہورہی ہیں وہ سب پردھان منتری کو ہی مل رہی ہیں جن سے وہ بیحد دباؤ میں ہیں۔ سرکار کے ایک سینئر وزیر کے مطابق ڈاکٹرسنگھ حالانکہ ٹی وی دیکھنے کے اتنے شوقین نہیں ہیں لیکن آج کل وہ ٹی وی دیکھنے لگے ہیں۔ابھی تک گھوٹالے اور بھرشٹاچار کے الزام کانگریس کے حمایتی یا دوسرے کانگریسی وزیروں پر لگائے جاتے تھے لیکن کوئلہ الاٹمنٹ معاملے میں تو صرف حملے منموہن سنگھ پر ہی ہورہے ہیں۔کانگریس کی زیر قیادت والی مرکزی سرکار کو چوطرفہ گھرتا دیکھ اسے سہارا دے رہے حمایتی اب کھل کر تیور دکھانے لگے ہیں۔ کوئلہ الاٹمنٹ میں پھنسے پردھان منتری کو ہٹانے کی چرچاؤں کے بیچ سرکار کی دو حمایتی پارٹیوں نے اب وسط مدتی چناؤ کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔سرکار کا حصہ ہونے کے باوجود ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ یوپی اے سرکار اپنا دورہ اقتدار پورا کرے لیکن حالات بگڑتے ہیں تو ان کی پارٹی وسط مدتی چناؤ کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ سماجوادی پارٹی چیف ملائم سنگھ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وسط مدتی چناؤ کبھی بھی ہوسکتے ہیں اور ان کی پارٹی نے تو چناوی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔پارٹی کے سینئر لیڈر اورترجمان موہن سنگھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سونیا گاندھی کو چھوڑ کر کوئی بھی کانگریسی نہیں چاہتا کہ منموہن سنگھ پی ایم کے عہدے پر رہیں۔ وہ کسی اور کو پردھان منتری بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ حالانکہ اس شخص کے نام کا خلاصہ تو موہن سنگھ نے نہیں کیا لیکن ان کا اشارہ راہل گاندھی کو قیادت سنبھالنے کی طرف ہوسکتا ہے۔کانگریس کا نوجوان طبقہ چاہتا ہے کہ اگر2014 میں راہل گاندھی پارٹی کی قیادت کریں گے تو بہتر ہوگا کہ انہیں ابھی سے پردھان منتری بنا دیا جائے۔ ویسے ایسے کانگریسیوں کی بھی کمی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ راہل کو قیادت سنبھالنے کا مناسب وقت نہیں ہے۔ پارٹی چوطرفہ گھری ہوئی ہے۔ اس وقت اگر راہل کو پردھان منتری کے عہدے پر بٹھا دیا جاتا ہے تو اگلے لوک سبھا چناؤ تک ان کی بھی مقبولیت زیرو ہوجائے گی۔تقریباً سبھی کانگریسی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ منموہن سنگھ کی قیادت میں پارٹی2014 کا لوک سبھا چناؤ نہیں جیت سکتی۔منموہن سنگھ اب ان کی نظروں میں ایک بوجھ بن گئے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟