چیف جسٹس کپاڑیہ کے دو بیان
ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس ۔ایچ کپاڑیہ نے حال ہی میں دو بیان ایسے دئے ہیں جن کا مطلب نکالنا آسان نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے جسٹس کپاڑیہ نے اس خطرے کے تئیں سرکار کو آگاہ کیا تھا کہ جوڈیشیل اصلاحات کے نام پر عدلیہ کی آزادی سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس کے تبصرے کو سیدھے سیدھے اس عدالتی پیمانے و جوابدہی بل سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے جو لوک سبھا میں پاس ہوچکا ہے اور اب اس پر راجیہ سبھا کی مہر لگنی باقی ہے۔ اس کی ایک متنازعہ شق میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی جج کسی بھی آئینی اور جوڈیشیری ادارے یا افسر کے خلاف کھلی عدالت میں معاملے کی سماعت کے دوران غیر مناسب رائے زنی نہیں کرے گا۔ پچھلے کچھ برسوں میں کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جس میں سپریم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ تک نے سیدھے سیدھے سرکاری کام کاج کے طریقے پر تلخ ریمارکس دئے ہیں۔ تلخی کا یہ میعار یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے اگر حالت نہیں سنبھلتی تو سرکار کو گدی کیوں نہیں چھوڑدینا چاہئے۔ اب چیف جسٹس کپاڑیہ نے تازہ بیان دیا ہے کہ جج صاحبان کو ملک کی حکومت نہیں چلانا چاہئے اور نہ ہی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ ججوں کو سونے کے اختیار کو بنیادی حق بنانے جیسے فیصلوں پر کسوٹی کو اپنانا چاہئے۔ عدلیہ کے کام کاج پر کچھ صاف آتم منتھن کرتے ہوئے جسٹس کپاڑیہ نے سوال کیا کہ اگر انتظامیہ ، عدلیہ کو ان ہدایتوں کی تعمیل کرنے سے منع کردیں جو نافذ کرنے لائق نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ ان کا کہنا ہے ہم نے کہا ہے کہ زندگی کی حق میں ماحولیاتی سلامتی اور روایات کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ اب ہم نے اس میں سونے کا حق بھی شامل کردیا ہے۔ ہم کہاں جارہے ہیں؟ یہ تنقید نہیں ہے کیا یہ نافذ کرنے لائق ہے؟ جب آپ حق کا دائرہ بڑھاتے ہیں تو عدلیہ کو اس کے عمل کی ذمہ داری کے امکان کوبھی تلاشنا ہوگا۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ ججوں کو خود سے سوال کرنا چاہئے کیا ایسے فیصلے لاگو ہونے لائق ہیں۔ انہوں نے کہا ججوں کو دیش کی حکومت نہیں چلانی چاہئے۔ جب کبھی آپ قانون کے تئیں پابند ہوں تو اسے حکمرانی میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ ہم جنتا کے تئیں جوابدہ نہیں ہیں۔ آئین کے بنیادی اصولوں میں انفرادیت اور روایت اور تقاضوں کو اہمیت دینی ہوگی۔ ہم چیف جسٹس کی باتوں کوٹھیک سے سمجھ نہیں پائے۔ ایک طرف تو وہ سرکار کو خبردار کررہے ہیں کہ وہ عدلیہ کے کام کاج میں مداخلت نہ کرے وہیں ججوں کو بھی کہہ رہے ہیں آپ حکمرانی چلانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ صحیح ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے حکمراں سرکاروں نے بہت سے تلخ فیصلے خود نہ کر سپریم کورٹ پر چھوڑدئے تاکہ وہ واہ واہی لوٹ سکیں اور جب سپریم کورٹ انہیں مسترد کردے تو سارا قصور عدالتوں پر تھونپ دیں۔ آئین میں عدلیہ اور انتظامیہ کے حق کے دائرے کی صاف طور پر تشریح کی گئی ہے لیکن پھر بھی کئی ایسے اشو دیکھنے میں آئے ہیں جب سرکار اور عدالتیں آمنے سامنے آجاتی ہیں۔ اس ٹکراؤ سے بچنا سبھی کے مفاد میں ہے۔ سرکار کو اپنا کام کرنا چاہئے اور عدلیہ کو اپنا۔ حکومت چلاناسرکار کا کام ہے اور قانون کی خلاف ورزی روکنا عدالت کا کام ہے۔ سرکار کو اگر عدالت سے ٹکراؤ سے بچنا ہے تو وہ قوانین کو توڑ مروڑ کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل سے پرہیز کریں۔ اگر سرکار میں دم ہے تو باقاعدہ قانون بنوالے۔ اگر قانون بن جاتا ہے تو عدالتوں کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ جسٹس کپاڑیہ کھل کر کچھ نہیں کہہ رہے ہیں اگر اندر خانے انہیں درد کس بات کا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں