پرموشن میں ریزرویشن دینے کی تجویز پر اٹارنی جنرل کا انتباہ


درج فہرست ذاتوں و شیڈول قبائل برادریوں کو ترقی میں ریزرویشن دینے سے متعلق بل لانے کا وعدہ کرکے منموہن سنگھ سرکار کے سامنے اب نیا پیچ پھنسادیا ہے۔ مرکز کو اس کے ہی سینئر آئینی افسر اٹارنی جنرل جی ای واہنوتی نے صلاح دی ہے کہ سرکاری نوکریوں میں ترقی میں ریزرویشن دینے کی تجویز قانونی طور پر جائز نہیں ہے۔ انہوں نے سرکار کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر کوئی بھی قانون لاتے وقت سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے۔اس طرح کے قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جبکہ اس مدعے پر سپریم کورٹ اترپردیش کی جانب سے ترقی میں ریزرویشن دینے کے قانون کو منسوخ کرچکی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے ایک باقاعدہ ترمیم کرکے ایس سی ؍ایس ٹی کو ترقی میں ریزرویشن کا بھروسہ سیاسی پارٹیوں کو دلایا تھا۔ واہنوتی نے سرکار کو آگاہ کرتے ہوئے نصیحت دی ہے کہ ترمیم کے لئے مجوزہ قدم مضبوط ہونے چاہئیں کیونکہ شہری اختیارات کی خلاف ورزی کی بنیادپر لوگ کورٹ میں اسے چنوتی دیں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیادپر سرکار کو اس مسئلے کے سبھی پہلوؤں سے واقف کراتے ہوئے اس میں ترقیوں کی بھی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ سرکار کو اٹارنی جنرل کی صلاح پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ووٹ بینک کے چکر میں سرکار کوکوئی ایسا قدم اٹھانے سے بچنا چاہئے جو آئین کے خلاف ہو اور جسے سپریم کورٹ سے منظوری نہ مل سکے۔ سپریم کورٹ نے این ۔ناگراجن کے فیصلے میں کہا کہ سرکار تبھی ترقی میں ریزرویشن دے سکتی ہے جب اس کے پاس اس بات کے اعدادو شمار موجود ہوں کہ دیگر عہدوں پر پسماندہ طبقات کے لوگوں کو مناسب نمائندگی نہیں ملی ہوئی ہے۔ یہ اعدادو شمار اکھٹے کرنا مشکل کا م ہے۔ عدالت نے اس تفصیل کی کمی میں ہی27 اپریل کو یوپی سرکار کا پرموشن میں ریزرویشن دینے کا قانون منسوخ کردیا تھا۔ دراصل ترقی میں ریزرویشن آئین کی دفعہ 16(4) کے تحت دیا جاتا ہے۔ اس دفعہ میں سہولت ہے کے سرکار نوکری میں ریزرویشن تبھی دے سکتے ہیں جب یہ یقینی کرسکیں کہ پسماندہ طبقوں کی اعلی عہدوں پر مناسب نمائندگی نہیں ہے۔مسئلہ یہ ہی ہے کہ کیا کافی نمائندگی لفظوں میں ہے۔ کورٹ یہ ہی پوچھتی ہے کہ کیا سرکار نے ریزرو طبقے کے لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں مناسب نمائندگی کا سروے کروایا۔ ترقی میں ریزرویشن کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لئے یہ صلاح بھی شاید ہی مسئلے کا صحیح طرح سے حل نکال سکے کہ دیگر پسماندہ طبقوں کو بھی ویسا ہی فائدہ ملے جیسا درجہ فہرست ذاتوں اور شیڈول قبائل برادریوں کو دینے کی پیروی کی جارہی ہے۔ اگر ریزرویشن کا مقصد سماجی برابری لانا اور محروم طبقوں کو فائدہ پہنچانا ہے تو پھر ایسا کوئی نظام قائم کرنے سے بچنا چاہئے جو کسی دوسرے طبقوں کے مفادات کو چوٹ کرتا ہو۔ 
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اگر سبھی سیاسی پارٹیاں ایماندار ہیں تو ایسا سسٹم کیوں نہیں بناتے جس سے ترقی میں کسی بھی طبقے کے ساتھ امتیاز کی گنجائش نہ رہے؟ بہتر تو یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹی اور خاص طور سے سرکار ترقی میں ریزرویشن کے سوال پر کوئی نیا سسٹم بنائے اور پرانے سسٹم میں سدھار کے ذریعے سے ہی معاملے کو سلجھانے کے بارے میں غور و فکر کرے۔ہاں اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سبھی پارٹیاں جس میں حکمراں پارٹی کانگریس بھی شامل ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھے۔ ابھی تو یہ ہی لگتا ہے کہ درجہ فہرست ذاتوں، شیڈول قبائل برادریوں کے مفادات سے زیادہ ان کو ان کے ووٹ کی فکر ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!