بینک ہڑتال سے آخر نقصان کس کو ہوگا؟
سرکاری سیکٹر کے بینکوں کی دوروزہ ملک گیر ہڑتال سے دیش بھر میں بینکوں میں لین دین بری طرح متاثر ہوا۔ بیشک پرائیویٹ بینکوں کے ملازمین ہڑتال میں شامل نہ ہونے سے کچھ حد تک صارفین کو پیسہ لینے یا جمع کرنے میں کوئی دقت نہیں آئی اور کچھ نے تو اے ٹی ایم سے کام چلایا۔ لیکن نجی سیکٹر یا پبلک سیکٹر کے اقتصادی لین دین پر اس کا اثر پڑا اور کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوا۔ بینکوں میں کام کاج ٹھپ رہنے سے نقدی کی منتقلی، چیک کلیرینگ ،غیر ملکی کرنسی لین دین سمیت تمام بینکنگ سروس ٹھپ رہیں۔ وقت پر چیک کلیر نہ ہونے سے بڑی تعداد میں سودوں کی ادائیگی رک گئی۔ نقدی کا لین دین رک جانے سے شیئر بازاروں میں بھی سستی رہی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہڑتال کا دائرہ کافی وسیع رہا۔ اس کے ذریعے سرکاری سیکٹر 24 اور کچھ پرائیویٹ بینکوں کے 10 لاکھ ملازمین نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اقتصادی سیکٹر میں 1 یا2 دن کی دیری بھی ہزاروں کروڑ روپے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس ہڑتال کا اثر اتنا ہی محدود نہیں ہوگا۔ پچھلا ہفتہ کافی چھٹیوں والا تھا۔ یوم آزادی کے ایک دن بعد سنیچر اور ایتوار آگیا اور پیر کو عید کی چھٹی ہوگئی یعنی 15 اگست کے بعد کل دو پورے کام کاجی دن تھے۔ ہڑتال کے بعد جمعہ آگیا اورہفتہ شروع ہوگیا۔ اسی طرح تقریباً ڈیڑھ ہفتے کا کام کاج متاثر رہا بینک ملازم بینک اصلاحات کے لئے تشکیل کنڈیلوال کمیٹی کی سفارشوں اور بینکنگ قانون ترمیم بل کو واپس لینے کی مانگ کررہے ہیں۔ یونینوں کی دلیل ہے کہ اس بل سے چھوٹے بینکوں کا انضمام ہوگا اور لاکھوں لوگوں کی نوکری خطرے میں پڑ جائے گی۔ جہاں یونینوں کی مانگوں میں بیشک دم ہو لیکن انہیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی مسئلے کے لئے ہڑتال کبھی کارگر ہتھیار نہیں ہوتی۔ صنعتی سیکٹر میں اب تک جتنی بھی ہڑتالیں ہوئی ہیں ان میں مالکوں کی بہ نسبت ملازمین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ دیش میں کار بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ماروتی سوزوکی کے مانیسر کارخانے کا تنازعہ اس کی تازہ مثال ہے۔ جہاں کبھی تین شفٹوں میں چھ ہزار سے زیادہ ملازم کام کرتے تھے ۔ ایک مہینے کی تالا بندی کے بعد یہاں محض تین سو ملازمین کو کام پر لیا گیا ہے۔ اس ورادات میں کمپنی کو بھلے ہی اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہو لیکن جن لوگوں کا کام چھن گیا ہے ان کے سامنے اس مہنگائی کے دورمیں ان کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بینک ملازمین کے معاملے میں یونینوں کا ٹکڑاؤ سیدھے سرکار سے ہے۔ دراصل دیش میں چھوٹے موٹے اشوز پر ہڑتال ،سڑک جام، توڑ پھوڑ کی ایک روایت سی بن گئی ہے۔ اگر اس کے مضر اثرات پر نظر ڈالیں تو آخر کار اس میں نقصان ملازمین یا جنتا کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ بینکوں کی دو روزہ ہڑتال پر غور کریں تو دیش کی معیشت پر 30 ہزار کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ بینک ملازم پچھلے کئی دنوں سے کئی بار ہڑتال کر چکے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اصلاحات کے بعد بدلے گئے ماحول میں بینکوں کے کام کاج میں اصلاحات کی کوششیں کی گئی ہیں اور بینک ملازم عام طور پر ان کے خلاف ہیں۔ ہوسکتا ہے ان تمام کوششوں میں کچھ قدم ایسے بھی ہوں جن کا اثر ان کے کچھ جائز مفادات پر پڑتا ہو لیکن یہ تو فطری ہے کہ کوئی بھی ادارہ اسی پرانے دھرے پر لگاتار نہیں چل سکتا۔ بدلے ہوئے ماحول میں خرچ کم کرنے پیدا وار بڑھانے کی کوشش بھی کی جائے گی اور ہڑتالیں انہیں کچھ وقت کے لئے ہی ٹال سکتی ہیں۔ ایتوار اور تہواروں کو ملا کر اگست ماہ میں بینکوں میں اب تک 7 دن کام نہیں ہوپایا ۔ ایسے میں یونین لیڈروں کی دو تین دن کی ہڑتال کے فیصلے کو کیا مناسب ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ نجی سیکٹر کے بینکوں سے ویسے بھی سرکاری بینک سہولیات اور سروس میں پچھڑ رہے ہیں۔کیا ان ہڑتالوں سے یہ بہتر ہوگا کہ بینک ملازمین کو اپنی باتیں منوانے کیلئے دیگر متبادل پر بھی غور کرنا چاہئے یا ہڑتال سے کونسے مسئلے کا حل نکلے گا؟ انہیں ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہئے کہ آخر ہڑتال کے ذریعے دیش کو کیا ملے گا کیا اس سے عام جنتا کو فائدہ ہوگا؟ ہماری جمہوریت میں تحریک اور ہڑتال کی آزادی ہے لیکن ہمیں دیش اور جنتا کے تئیں اپنے فرائض کو نہیں بھولنا چاہئے خاص کر بینکوں کو جن کاواسطہ براہ راست عوام سے پڑتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں