گجرات فسادات پر لائق خیر مقدم فیصلہ، انصاف کی جیت


27 فروری 2002 کو ہوئے گودھرا کانڈ کے ایک دن بعد یعنی28 فروری کو وشو ہندو پریشد نے گجرات بند کا اعلان کیاتھا۔ اس کے دوران احمد آباد کے نرودہ پاٹیہ علاقے میں بھارتی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور مشتعل بھیڑ نے وہاں اقلیتی فرقے پر حملہ بول دیا جس کے نتیجے میں تشدد میں 97 لوگ مارے گئے جبکہ33 دیگر لوگ زخمی ہوئے۔ تقریباً ساڑھے دس سال بعد اس قتل عام کے لئے عدالت نے 32 لوگوں کو قصوروار و سزا سنائی ہے جبکہ29 لوگوں کو بری کردیا گیا۔ احمد آباد کی اسپیشل عدالت نے بدھوار کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان لوگوں کو مجرمانہ سازش اور قتل کے معاملے میں قصوروار ٹھہرایا تھا۔ قصوروار پائے جانے والے لوگوں میں گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور وی ایچ پی کے سابق لیڈر بابو بجرنگی شامل ہیں۔ گجرات میں پہلی بار کسی سابق وزیر کو سزا سنائی گئی ہے۔ اس معاملے میں 70 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا جن کے خلاف 325 سے زیادہ لوگوں نے گواہی دی تھی۔ ان میں چشم دید گواہ ، پولیس ملازم ، ڈاکٹر، فورنسک ماہرین اور اس معاملے میں اسٹنگ آپریشن کرنے والے ایک صحافی شامل تھے۔ وزیراعلی نریندر مودی کے قریبی مانے جانے والی مایا کوڈنانی کو مجرمانہ سازش، قتل اور اقدام قتل کا قصوروار پایا گیا۔اس فیصلے سے لوگوں کا دیش کے عدلیہ نظام پر بھروسہ مضبوط ہوگا۔خصوصی عدالت میں بھاجپا کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے بدنام لیڈر بابو بجرنگی پر الزام ثابت ہونے سے اتنا واضح ہوجاتا ہے کہ مودی سرکار کا اس شرمناک دنگوں میں بھلے ہی کوئی کردار نہ رہا ہو لیکن کچھ حد تک فساد روکنے میں وقت رہتے ہوئے قدم اٹھانے میں تاخیر ضرور ہوئی۔ یہ صحیح ہے کہ فساد کے دوران مایاکوڈنانی ممبر اسمبلی تھیں مگر دنگوں میں اس کے براہ راست رول نبھانے کے الزام لگے تھے۔ اس کے باوجود نریندر مودی کے ذریعے انہیں اپنی کیبنٹ میں شامل کرنے سے یہ ظاہرکرتا ہے کہ کیا انہیں اس بات کے لئے ایوارڈ دیا گیا تھا اور لوک لاج کو اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا؟ اس فیصلے سے مودی سرکار صاف طور پر پریشان ہے اور بھاجپا نیتاؤں کے لئے مودی سرکار کا بچاؤ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ بیشک یہ فیصلہ 10 سال کے بعد آیا ہے لیکن اس سے حملے میں مارے گئے لوگوں کے کنبوں کے دلوں میں انصاف کی امید بنی ہے۔ گجرات دنگوں میں جن معاملوں میں انصاف کی امید پوری ہوئی ہے اس کا زیادہ تر سہرہ سپریم کورٹ کو جاتا ہے۔ اگر ایس آئی ٹی کی تشکیل اور پہلے ہوتی تو فیصلہ اور جلدی آسکتا تھا۔ کسی بھی ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ فسادات کے قصورواروں اور سازشیوں کو سخت سے سخت سزا دلوائے لیکن اس معاملے میں علاقائی عوام نے بہت اچھا کام کیا ہے اور کئی براہ راست غیر براہ راست دھمکیوں کے باوجود 327گواہوں نے سامنے آکر گواہی دی۔ دنیا جانتی ہے گجرات دنگوں کو روکنے میں مودی سرکار ناکام تھی اور وزیر اعلی نریندر مودی نے یہ کہہ کر دنگوں کو صحیح ٹھہرایا تھا کہ نیوٹن کی تھیوری کے مطابق عمل پر ردعمل ہوتا ہے۔ اس وقت وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو نریندر مودی کو راج دھرم کی یاد دلانی پڑی تھی۔ اس عدالتی فیصلے کا نریندر مودی اور بھاجپا پر دور رس اثر پڑ سکتا ہے۔ اب گجرات میں اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ان پر اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا۔ گجرات کی اپوزیشن پارٹی کانگریس اسے گجرات میں اور پورے دیش میں اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ نریندر مودی کی قومی توقعات پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس فیصلے سے اتنا تو ثابت ہوجاتا ہے کہ فسادات میں بھاجپا اور بجرنگ دل کے کچھ لوگ ملوث تھے۔ نریندر مودی اپنے بچاؤ میں کہہ سکتے ہیں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ مودی سرکار ان میں شامل تھی یا اس نے انہیں روکنے کے لئے کوئی ضروری قدم نہیں اٹھائے۔ کہنے کو تو بھاجپا یہ کہہ سکتی ہے کہ چلو ہم نے تو گجرات دنگوں کے قصورواروں کو سزا دلوا دی ہے لیکن ہزاروں سکھوں کے قتل عام 84 کے دنگوں میں آج تک ایک بھی نیتا کو قصووار نہیں ٹھہرایا جاسکا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!