کانگریس کے پلٹ وار سے ممتا اپنے ہی جال میں پھنسیں

صدارتی چناؤ میں ممتا بینرجی اور ملائم سنگھ یادو کی جگل بندی نے ایسا پینچ پھنسایا تھا کہ کانگریس چاروں خانے چت ہوجائے لیکن کانگریس کو شاید کبھی یہ امید نہ ہوگی مگر کانگریس نے اپنا امیدوار پرنب مکھرجی کو اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور اس کے اس پاسے سے ممتا بینرجی الگ تھلگ پڑ گئی ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سماجوادی پارٹی نے بھی بطور صدر امیدوار پرنب مکھرجی کے نام کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور بسپا چیف محترمہ مایاوتی نے بھی یوپی اے کے ذریعے امیدوار اعلان کئے جانے کے بعد پریس کانفرنس کرکے یوپی اے کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل بسپا چیف مایاوتی کی محترمہ سونیا گاندھی کی ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد پارٹی نے یہ فیصلہ لیا ہے۔یوپی اے کے صدارتی امیدوار پرنب مکھرجی کا نام سامنے آنے کے بعد سارے تجزیئے بدل گئے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو ممتا بینرجی نے ڈاکٹر کلام کا نام پیش کرکے ایک تیر سے کئی نشانے سادھنے کی کوشش کی تھی۔ وہیں سپا چیف ملائم سنگھ یادو ہیں جنہیں کچھ دن پہلے ہی یوپی اے II- کی سالانہ رپورٹ کارڈ پیش کرنے کے لئے سرکار کے اہم وزرا کے ساتھ ایک اسٹیج پر کھڑا کیا گیا تھا اور رپورٹ جاری کی گئی تھی۔ ممتا نے کانگریس سے بدلہ لینے کیلئے کلام کا کارڈ کھیلا تھا۔ کانگریس نے یہ وارننگ دینے کی کوشش کی تھی کہ ممتا آپ کے پاس لوک سبھا کے 19 ایم پی ہیں تو ہم سماجوادی پارٹی کو گلے لگا کر ان کے 22 ممبران کی حمایت پا سکتے ہیںآپ اپنی اوقات میں رہو۔ ممتا نے ایک جھٹکے میں کانگریس کو اس کی اوقات دکھانے کی کوشش کی تھی۔ اپنے پینل میں سومناتھ چٹرجی کا نام شامل کرکے ممتا نے یہ بھی جتایا تھا کہ وہ بنگالیوں کے خلاف نہیں ہیں۔ پرنب مکھرجی کی حمایت اس لئے بھی کرنے کو ممتا کو مجبور کیا جارہا تھا کیونکہ پرنب دادا بھی بنگالی ہیں اور بنگالی ہونے کے ناطے ممتا ان کی حمایت کرنے کیلئے آخر میں مجبور ہوجائیں گی لیکن ممتا نے یہاں بھی کانگریس کو مات دے دی اور سومناتھ چٹرجی کا نام لیکر اس تنقید سے بھی اپنے آپ کو بچالیا۔ یوپی اے سرکار سونیا گاندھی کی پسند کو مسترد کرکے ممتا۔ ملائم نے جو پانسا پھینکا ہے وہ آنے والے دنوں میں نئے پولارائزیشن کو جنم دے گا۔ آخری وقت میں جس ڈھنگ سے ممتا اور کانگریس صدرسونیا گاندھی نے جو گگلی چلی ہے اس سے سیاست میں ایک طرح سے بھونچال آگیا ہے۔ اس سے کانگریس کی نہ صرف مشکل میں کمی آئی ہے بلکہ صدارتی چناؤ کو اب پیچیدہ بنادیا ہے۔ دراصل صدارتی عہدے کے چناؤ کے لئے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا نام لینا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کی علامت ہے۔ کانگریس کے اندر بھی ایک ایسا گروپ ہے جو منموہن سنگھ کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانا چاہتا ہے۔ منموہن سنگھ کا نام تجویز کرنا ایک طرح سے یوپی اے سرکار کی ان دونوں حمایتی پارٹیوں کے ذریعے وزیر اعظم میں عدم اعتماد کا اظہار کرنے کے مانند ہے۔ منموہن سنگھ کانگریس پارٹی کے لئے ایک بوجھ بن چکے ہیں وہ ایسٹڈ کم لائبلیٹی زیادہ ہیں۔سبھی جانتے ہیں منموہن سنگھ کو ہٹانا اس وقت کانگریس کے لئے ممکن نہیں ہیں لیکن ممتا ۔ ملائم نے پنگا ضرور پھنسادیا ہے۔دونوں نے سونیا گاندھی کو یہ بھی واضح پیغام دیا ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی فیصلے تک پہنچنے میں ترنمول اور سپا کے رول کو درکنار نہیں کیا جاسکتا۔ ممتا اور کانگریس میں تلخی اب یقینی طور پر بڑھے گی۔ ایک کانگریسی ایم پی ادھیر چودھری نے تو ممتا کا موازنہ میر جعفر سے ہی کرڈالا کیونکہ انہوں نے ایک بنگالی(پرنب مکھرجی) کی مخالفت کی ہے۔ ممتا کے اس برتاؤ کو سونیا گاندھی شاید نہ بھول پائیں اس لئے دونوں خواتین میں ایک ایسی دراڑ پڑ گئی ہے جس کو پر کرنا آسان نہ ہوگا۔ ممتا دیدی بہت غصے میں ہیں۔ ملائم اور ممتا نے مل کر کانگریس کو یوں ہی نہیں چت کرنے کی کوشش کی تھی۔ دونوں ہی کانگریس اور اس کی سرکار سے بظاہری طور پر عاجز لگتے ہیں۔ اب کانگریس پر یہ منحصر رہے گا کہ صدارتی عہدے کا چناؤ کروانے کیلئے کس حد تک جاناچاہے گی؟ ذرائع کے مطابق بہانا بھلے ہی صدارتی چناؤ ہو لیکن لگتا یہ ہے ملائم اور ممتا نے یوپی اے سرکار کو حمایت کے باوجود کانگریس سے نمٹنے کیلئے موٹے طور پر ایک بلیوپرنٹ تیار کرلیا ہے۔ دونوں ہی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مرکز میں سرکار بنانے کے باوجود ضرورت کسی موقعے پر کانگریس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ سپا تو وہ بات شاید اب تک بھولی نہیں ہوگی جب 2008 میں امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے لئے اس نے منموہن سنگھ حکومت کو بچانے کے لئے اپنے لیفٹ ساتھیوں سے رشتے تک خراب کرلئے تھے جبکہ ممتا بینرجی تو محض تین سال میں ہیں اس کانگریس اور اس کی سرکار کے’ استعمال کرو اور پھینک دو‘ کے رویئے سے اب بیزار ہوچکی ہیں۔ دونوں میں یہ تاثر بنا ہے کہ کانگریس انہیں ایک دوسرے کی قیمت پر استعمال کرتی ہے لہٰذا اب اسے سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ ملائم اور ممتا نے صدارتی عہدے کے لئے اے پی جے عبدالکلام، منموہن سنگھ اور سومناتھ چٹرجی میں سے کسی ایک اور امیدوار بنانے کا اعلان کر کانگریس کے خلاف ایک لمبی لڑائی لڑنے کا سندیش دیا ہے۔اگر سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام چناؤ لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں تو یقینی طور پر صدارتی چناؤ ہوگا۔ مگر ممتا بینرجی کے ان کے نام پر اٹل رہنے سے معاملہ اب یقینی طور پر طول پکڑ سکتا ہے اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ منموہن سرکار بھی جا سکتی ہے۔ ماننا پڑے گا ممتا نے ایسی شطرنج کی چال چلی کہ کانگریس بیک فٹ پر آگئی ہے۔ ابھی چناؤ میں وقت ہے دیکھیں آنے والے دنوں میں یہ دھند ہٹتی ہے یا نہیں؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟