ساڑھے چار فیصد اقلیتی کوٹے پر سپریم کورٹ نے لگائی پھٹکار

مرکزی سرکار نے اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے جس ہڑبڑی سے بغیر سوچے سمجھے ووٹ بینک کے چکر میں پسماندہ طبقے یعنی اوبی سی کے 27فیصدی ریزرویشن کے اندر پسماندہ اقلیتوں کو ساڑھے چار فیصدی ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا اس کا حشر وہی ہونا تھا جو ہوا۔ اب سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسٹے دینے سے انکارکردیا ہے۔ عدالت نے دو ٹوک کہا ہے کہ ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دینے کی پختہ بنیاد نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ آندھرا پردیش کی کانگریس سرکار نے مسلمانوں کو ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دیا تھا۔ مرکزی حکومت نے کافی ادھیڑ بن کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلے پر اسٹے لینے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ منموہن سرکار نے جب یہ فیصلہ لیا تھا تبھی یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ ریزرویشن کا اشو عدالتی ضمیر سے بھٹک کر خالی سیاسی نفع نقصان پر مرکوز تھا۔ جنتا بے وقوف نہیں ہے وہ تب ہی سمجھ گئی تھی کہ منموہن سرکار لوک پال بل سے چوطرفہ دباؤ میں ہے اور وہ جنتا کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ ریزرویشن کا شوشہ لائی ہے۔ بدقسمتی سے مرکزی سرکار کی یہ چال کامیاب نہیں ہوئی اور اقلیتیں سرکار کے اس لالی پاپ کے چکر میں نہیں آئیں اور کانگریس کی یوپی اے سرکار کو منہ کی کھانی پڑی۔ کانگریس کا عالم یہ رہا کہ مسلم ووٹوں کے پولارائزیشن کے لئے تب مرکزی سرکار کے وزیر آئینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر بے تکی بیان بازی پر اتر آئے۔ اچھی بات یہ رہی جو جھٹکا پہلے کانگریس کو پہلے آندھرا پردیش نے دیا تھا تقریباً اسی طرح کا جھٹکا پارٹی کو اترپردیش کے چناوی نتیجے سے ملا۔ اس کے باوجود دونوں جھٹکوں کے کانگریس کی رہنمائی والی یوپی اے سرکار مسلمانوں کی حمایتی دکھائی دینے کیلئے سپریم کورٹ پہنچی۔ یہاں بھی اسے مایوسی ہاتھ لگی۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریزرویشن آئینی سسٹم اور اس کی آڑ میں ہونے والی سیاست دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ ریزرویشن کے ذریعے سماج کے نظرانداز طبقے کو قومی دھارا سے جوڑنے میں یقینی طور پر مدد ملی ہے لیکن شطرنج کی چال میں سیاسی پارٹیوں اور سرکاروں نے ریزرویشن کو اپنے سیاسی فائدے کے حصول کا ذریعہ بنا لیا جبکہ کسی پسماندہ طبقے کی بھلائی کے لئے ریزرویشن ایک ذریعہ ہے اور وہ بھی مناسب موقعے دستیاب کرائے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سرکار عدالت کو یہ بھی نہیں بتا سکی کہ کس بنیاد پر اقلیتوں کو ساڑھے چار فیصدی ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ابھی تک سرکار کے پاس عدالت میں اپنی دلیل دینے کیلئے اس کے پاس کوئی پختہ بنیاد نہیں ہے کہ ریزرویشن دینے کا فیصلہ اس نے ایک مفصل سروے کے بعد لیا۔ اس اشو پر مرکزی سرکار اور کانگریس پارٹی کی ایک طرح کی کرکری ہوئی اور وہیں دوسری طرف ایک اچھی بات یہ رہی کہ ریزرویشن کی سیاست کے خلاف سب سے تلخ احتجاج اس بار مسلم طبقے کی طرف سے کیا گیا ہے۔ مرکز ی سرکار اب بھی اقلیتوں کو بیوقوف بنانے سے باز نہیں آرہی ہے۔ سلمان خورشید آئینی ترمیم کی بات کررہے ہیں۔ کانگریس مسلمانوں میں بری طرح سے بے نقاب ہوچکی ہے۔ اب وہ سرکار کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ بدھوار کو عدالت نے بھی ریزرویشن دینے کے معاملے پر اسٹے دینے سے انکار کردیا ۔ جسٹس ایس ۔کے رادھا کرشن، جسٹس جے ۔ایس کھلڑ کی ڈویژن بنچ نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل گورو بینر جی کی دلیلیں سننے کے بعد دو ٹوک لفظوں میں کہا ہم ہائی کورٹ کے حکم پر روک نہیں لگائیں گے۔ جج صاحبان نے بھی سرکار سے وہی سوال کیا کہ دیگر پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن میں سے کیا مذہب کی بنیاد پر اس طرح کی کلاسی فکیشن کی جاسکتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!