دیش کی معیشت چوپٹ کرنے کیلئے سونیا ۔منموہن ذمہ دار

جو بات اکثر کہا کرتے ہیں اس کی تصدیق اب بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پورس (ایس اینڈ پی) نے کردی ہے۔ ہم اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی غلط پالیسیوں ،غلط فیصلے کرنے کی عادت نے دیش کو کنگالی کے دہانی پر پہنچادیا ہے۔ بھارت کی گرتی معیشت ساکھ کے لئے سونیا گاندھی اور منموہن سنگھ ذمہ دار ہیں۔ یہ الزام اپوزیشن پارٹیوں کا نہیں بلکہ ایس اینڈ پی کا ہے۔ ایجنسی بھارت کی کریڈیٹ ریٹنگ کو اور کم کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے سیدھے الفاظ میں کانگریس کو ہی اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بقول ایجنسی پارٹی جہاں اندرونی اختلافات سے گھری ہوئی ہے وہیں یوپی اے سرکار پر الزام تراشیوں کی کی بوچھار ہے۔ ایس اینڈ پی نے یوپی اے سرکار کے سیاسی ڈھانچے پر سنگین سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کانگریس صدر سونیا گاندھی کے پاس اعلی اختیارات ہیں لیکن وہ کیبنٹ میں نہیں ہیں جبکہ بغیر چنے ہوئے معمور وزیر اعظم کے پاس سیاسی فیصلے کیلئے بنیاد نہیں ہے۔ وزیر اعظم کا اپنی کیبنٹ پر ہی کنٹرول نہیں ہے۔ وہ اپنے وزرا سے بھی اپنی بات نہیں منوا سکتے۔ سخت فیصلے لینے تو دور رہے ،اقتصادی اصلاحات پر بھی بریک لگ گیا۔ اس کا ذمہ اتحادی پارٹیوں کے تیور اور اپوزیشن کے تلخ رویئے پر تھونپ رہی سرکار کے لئے ایجنسی کا یہ تبصرہ بڑا جھٹکا ہے۔ ایجنسی نے اتنا ہی نہیں کہا بلکہ ایک قدم اور بڑھتے ہوئے پیر کو محض کریڈٹ پر ہی نہیں بلکہ بھارت کی سیاسی حالت پر بھی ریٹنگ نیچے گرادی۔ ڈالر کے مقابلے مسلسل گر رہے روپے اور اقتصادی اصلاحات پر شش و پنج کی حالت کا حوالہ دیتے ہوئے ایجنسی نے خبر دار کیا کہ اب بھارت کی ریٹنگ خطرناک پوزیشن پر جا سکتی ہے۔ سوال سیاسی منشا پر اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ اصلاحات کو روکنے کے لئے اپوزیشن یا اتحادی پارٹی نہیں خود کانگریس اور سرکار ذمہ دار ہے۔ پارٹی کے اندر ہی اسے روکا جارہا ہے۔ پارٹی صدر سیاسی طور سے مضبوط ہیں لیکن وہ سرکار میں نہیں ہیں۔ جس کے ہاتھ میں سرکار کی لگام ہے ان کے پاس سیاسی بنیاد اور حمایتی نہیں ہیں۔ فیصلہ لیڈرشپ کی کمی اور پالیسی ساز فیصلے لینے میں بے فیصلے کی ساکھ کے سبب سرمایہ کاروں کا اعتماد ڈگمگاگیا ہے۔ ایجنسی نے بھارت کی ساکھ گھٹانے کی تنبیہ کی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت ’برکس‘ (برازیل۔ روس۔ بھارت ۔ چین اور افریقہ) دیشوں میں ساکھ گنوانے والا پہلا ملک ہوگا۔ ایجنسی کی وارننگ کی کئی وجوہات ہیں جن کا اس نے تذکرہ کیا ہے۔ دیش میں معیشت بگڑ رہی ہے۔ صنعتی ترقی کے تازہ اعدادو شمار سے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری اور پروڈکٹس اور پیداوار میں گراوٹ کے سبب صنعتی پیداوار کی اضافی شرح اس سال اپریل مہینے میں بھاری گراوٹ کے ساتھ 0.1 فیصدی پر آگئی ہے۔ یہ پچھلے سال اپریل میں 5.3 فیصدی تھی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پچھلے کئی برسوں کے مقابلے بھارت کی معیشت کی تصویر اچھی نہیں ہے۔ اپریل میں جی ڈی پی میں پچھلے 9 برسوں میں سب سے بڑی گراوٹ درج ہوئی ہے۔ سرکاری خسارہ بڑھا ہے اور تجارتی گھاٹا بھی۔ سب سے تکلیف دہ پہلو تو یہ بھی ہے کہ اس سرکار نے دیش کو اس اقتصادی دلدل سے نکالنے کیلئے نہ تو کوئی پلان ہے نہ ہی کوئی قوت ارادی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟