ہم نے قتیل کو اس لئے مارا کیونکہ اس نے گنپتی مندر میں بم رکھا تھا

پنے کی یرودا جیل میں گذشتہ جمعہ کو جیل کے اندر ہی انڈین مجاہدین کے ایک مشتبہ آتنک وادی محمد قتیل صدیقی کو قتل کردیا گیا۔ صدیقی جرمن بیکری کانڈ، چننا سوامی اسٹیڈیم سمیت کئی آتنکی دھماکوں کا ملزم تھا۔ قتیل کو جمعہ کو ہی عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ پولیس کے مطابق قتیل کا قتل دو قیدیوں شرد موہل اور آلوک مالے راؤ نے کیا۔ مالے راؤ نے اسے مانا بھی ہے۔ قتیل صدیقی کے قتل میں انڈر ورلڈ کا ہاتھ مانا جارہا ہے۔ اے ٹی ایس کے ایک افسر نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ پولیس اب انڈرورلڈ کے نقطہ کی چھان بین کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ممکن ہے قتیل صدیقی کا قتل داؤد ابراہیم اور چھوٹا راجن کے درمیان چھڑی جنگ کا حصہ رہا ہو۔ صدیقی کے قتل میں کہا جارہا ہے کہ ممکن ہے چھوٹا راجن کا ہاتھ ہو۔ خیال رہے 1993ء ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے بعد داؤد اور چھوٹا راجن الگ الگ ہوگئے اور دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ داؤد ابراہیم اب پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے پوری طرح مل چکے ہیں اور دونوں مل کر بھارت پر حملے کروا رہے ہیں۔ چھوٹا راجن کے چیلے بھرت نیپالی ،وجے شیٹی اور روی پجاری جنہوں نے اپنے گروہ بنا لے ہیں اب داؤد کے گرگوں کاو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے شرد موہل اور آلوک مالے راؤ نے پوچھ تاچھ کے دوران پولیس کو بتایا کہ انہوں نے صدیقی کا قتل اس لئے کیا کیونکہ اس نے بھگوان گنپتی کے مندر کو اڑانے کی سازش کی تھی اور وہ دیش دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ حالانکہ ابھی تک دعوے سے تو نہیں کہا جاسکتا کہ قتل کس بنیاد پر کیا گیا لیکن اتنا لگتا ہے کہ یہ انڈورورلڈ میں جنگ کا ایک حصہ ضرور ہے۔ ممکن ہے صدیقی کو جیل میں مارنے کی کسی نے سپاری دی ہو کیونکہ دونوں قیدی پہلے ہی سے یرودا جیل میں تھے۔ اس لئے انہیں جیل کی سرگرمیوں کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ قتیل کا خاندان اس قتل کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کررہا ہے۔ خاندان کے ذرائع نے بتایا کہ وہ اس کو لیکر سپریم کورٹ میں جاسکتے ہیں۔ مارا گیا قتیل صدیقی آتنک وادی سرگرمیوں میں شامل ہونے سے پہلے ایک پلمبر یعنی نل ٹھیک کرنے والا تھا۔ اس نے دہلی پولیس کے ذریعے گرفتار ہونے پر بتایا تھا کہ لال گنج دربھنگہ کا رہنے والا ہے۔2008ء میں دہلی میں عمران عرف شاہ رخ حبیب عرف اقبال ،شاہد عرف ریاض بھٹکل سے اس کا تعلق قائم ہوا۔ یہ لوگ بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ اور مسلمانوں پر ہورہے ظلم کی باتیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے میں نے انڈین مجاہدین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اکتوبر2009ء کو میں کولکتہ آیا ،وہاں سے پاکستان جانے کا پروگرام تھا اس نے جرمن بیکری کا فروری2010ء میں جا کر اپنا جرم قبول کیا۔اس کے علاوہ اس نے گنیش مندر میں جاکر ایک بیگ رکھا تھا جس میں بم تھا لیکن مجھے بیگ رکھتے کچھ بھکتوں نے دیکھ لیا تھا اس لئے ہم اس میں دھماکہ نہیں کرپائے۔ اس نے چننا سوامی اسٹیڈیم میں بم رکھنے کی بات بھی قبول کی تھی۔ بم رکھنے کے بعد وہ دربھنگہ بھاگ گیا تھا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!