آر ایس ایس کی خواہش ہے نریندر مودی کی لیڈر شپ میں پارٹی چناؤ لڑے


بھاجپا میں بڑھتی اندرونی رسہ کشی کا ایک ثبوت سنجے جوشی کا پارٹی چھوڑنا پہلے بے عزت کرکے سنجے جوشی کو قومی ورکنگ کمیٹی سے نکالا گیا اور اب پارٹی سے ہی نکلنے پر مجبور کردیا گیا۔ یہ سب آر ایس ایس اور گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے اشاروں پر صدر نتن گڈکری نے کیا۔ اب یہ صاف ہوچکا ہے کہ گڈکری تو ایک مکھوٹا ہے اصل طاقت تو آر ایس ایس ہے اور سنگھ نے اندرخانے یہ فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک طرف سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو نیچا دکھانا ہے تو دوسری طرف نریندر مودی کو ہونے والے وزیر اعظم کے طور پر پروجیکٹ کرنا ہے۔ تبھی تو سنگھ کے اخبار ’’آرگنائزر‘‘ کے تازہ شمارے میں کہا گیا ہے کہ کانگریس پارٹی کا تیزی سے گراف گر رہا ہے لیکن بھاجپا لیڈر شپ والے این ڈی اے کا کانگریس کی اس تنزلی کا فائدہ اٹھا پانا مشکل نظر آرہا ہے۔ صرف مودی ہی ایک ایسا چہرہ ہیں جن میں پارٹی کو نئی توانائی اور دیش بھر میں اس کے ووٹ کو فروغ دینے کی صلاحیت ہے۔ جیسے اٹل بہاری واجپئی نے 90 کی دہائی میں کرکے دکھایا تھا۔ اگر آر ایس ایس اس نتیجے پر واقعی پہنچ چکی ہے تو کیوں نہیں کھلے طور پر اعلان ہوتا کہ سنگھ اور بھاجپا 2014ء کا لوک سبھا چناؤ نریندر مودی کی لیڈر شپ میں لڑیں گی؟ شری نریندر مودی کی ساکھ کٹر ہندوتو کی ہے۔ اٹل جی کی ساکھ اور مودی کی ساکھ میں بہت بڑا فرق ہے۔ اٹل جی سب کو ایک ساتھ لیکر چلتے تھے۔ مودی کے کام کرنے کا اپنا ہی ڈھنگ ہے یہ نہ تو ورکر کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ لیڈر کی اور نہ ہی آر ایس ایس کی۔ ان کی توقعات اب آر ایس ایس اور بھاجپا سے بالاتر ہوچکی ہیں وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے۔کل تک انہی گڈکری صاحب کی مودی سے ان بن تھی لیکن اب سنگھ کے اشارے پر گڈکری کو مودی سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ اس سودے کی گڈکری کو کیا قیمت دینی پڑی ہے ،سنجے جوشی کے معاملے سے پتہ چلتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ آر ایس ایس مودی کو اڈوانی کے خلاف اتار رہی ہے۔ اڈوانی کو کنارے لگانے کے لئے سنگھ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ جب سنگھ کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ اب اٹل جی سیاست میں سرگرم رول نہیں نبھا سکتے تو اس نے اڈوانی کی کاٹ کرنا شروع کردی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ خود شری اڈوانی نے انہیں بہانا بھی غلطی سے فراہم کردیا۔ میں جناح سے متعلق بیان کی بات کررہا ہوں۔ کبھی راجناتھ سنگھ کو آگے کرکے تو کبھی دوسری لائن کے لیڈروں کو اکسا کر اڈوانی کو ڈاؤن کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی اڈوانی کے سامنے دیگر بھاجپا نیتا بونے لگتے ہیں۔ نریندر مودی بیشک ایک قابل اور دھاکڑ ساکھ والے لیڈر ہیں لیکن انہیں بھاجپا کے اندر اور باہر کتنا قبول کیا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ اگر نریندر مودی کو ہونے والے وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو بھاجپا میں ہی گھماسان ہوجائے گا۔ سشما سوراج، ارون جیٹلی، راجناتھ سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی سبھی اپنے دعوے پیش کرسکتے ہیں۔ پھر این ڈی اے کی دوسری اتحادی پارٹیاں جن میں نتیش کمار کی جنتا دل (یو) بال ٹھاکرے اور پرکاش نسگھ بادل جیسے سرکردہ لیڈر ہیں، کیا وہ مود ی کو قبول کرلیں گے؟ اڈوانی جی ایسے لیڈر ہیں جن کی چھتری کے نیچے شاید این ڈی اے اتحادی پارٹیاں متحد ہوسکیں۔ کانگریس کے خلاف ماحول اتنا خراب ہے کہ کیا کہہ سکتے ہیں لیکن شاید مسلمان بھی مودی کی جگہ اڈوانی کی حمایت کردیں؟ لیکن اڈوانی اونچے قد کے باوجود آر ایس ایس انہیں ڈاؤن کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ پہلے راجناتھ سنگھ کو کھڑا کیا گیا وہ ناکام رہے، اب نریندر مودی کو کھڑا کیا جارہا ہے یعنی آر ایس ایس ایسا کرنے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ لیکن آر ایس ایس اپنے ہی بنے جال میں پھنستی نظر آرہی ہے اور اڈوانی کے خلاف مودی کو متبادل کے طور پر آگے لانے کی حکمت عملی آر ایس ایس کے خلاف ہی ثابت ہورہی ہے۔ اب آر ایس ایس کو یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ مودی کی شرطوں کو کیسے مسترد کرے؟ مجبور ہوکر آر ایس ایس مودی سے بلیک میل ہورہی ہے۔ اصل میں سنگھ کو یہ اندازہ شاید نہیں تھا کہ نریندر مودی اپنے رویئے کے مطابق ہی سیاست کریں گے۔ انہوں نے اپنی سیاسی دبنگئی سے جس طرح سے پروین توگڑیا جیسے سنگھ کے لیڈروں کو بے اثر بنادیا اسی طرح اپنے مخالفین کی سازش اور سیاسی سودے بازی کے تحت نپٹانے میں کوئی قباحت نہیں کی۔ نریندر مودی کی اس دبنگئی کی وجہ سے آج پوری دنیا میں بھاجپا کی ساکھ مسلم مخالفت اور دبنگئی بنی ہوئی ہے۔ ہندوتو کے جھنڈا برداروں کو ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ دیش میں اصلاح پسند ہندوتو تو ٹھیک ہے لیکن پرتشدد اور کٹر ہندوتو کی حمایت اکثریتی ہندو بھی نہیں کرتے اس لئے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ مرکزی سیاست میں مودی قابل قبول ہوں؟ بھارت گجرات نہیں راجیہ میں جو چلے یہ ضروری نہیں پورے دیش میں بھی وہی شخص چلے۔ ابھی تو سنگھ کی غلط حکمت عملی کے مضر اثرات کی شروعات ہے۔ انہوں نے بھاجپا کی روایت اور سسٹم کے خلاف جو تجربہ شروع کیا اس کے منفی نتیجے بھی سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔ آسان زبان میں کہیں تو آر ایس ایس نے مودی کو بھسما سور کی شکل میں تیار کردیا ہے لیکن جیسا سنگھ سے وابستہ اخبار جریدوں و لیڈروں کے ذریعے نریندر مودی کو مسلسل نصیحتیں دے رہے ہیں اسے تھوڑے اوربڑا کریں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے بھاجپا میں اب تنظیم پہلے نیتا بعد میں کا اصول ختم ہوگیا ہے۔ بھاجپا اب سنگھ کی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے جس کے منیجنگ ڈائریکٹر نتن گڈکری ہیں اور یہ پارٹی کو اپنی نجی کمپنی کی طرح چلا رہے ہیں۔محض دو سیٹوں سے لوک سبھا میں بھاجپا کو 175 سیٹوں تک پہنچانے والے لال کرشن اڈوانی کا موازنہ نریندر مودی سے کتنا کامیاب ثابت ہوگا یہ تو مستقبل ہی بتائے گا لیکن اتنا طے ہے کہ مودی کو بھاجپا کے اندر ہی کئی مورچوں پر لڑنا پڑے گا۔ ابھی لوک سبھا چناؤ میں دو برس باقی ہیں ایسی حالت میں سنگھ کی اڈوانی مخالف مہم بھی پٹ سکتی ہے۔ اڈوانی جی کو سنگھ اور بھاجپا مل کر جتنا پیچھے دھکیلنے کی کوشش کریں لیکن حقیقت تو یہ ہی ہے کہ ان کے سامنے گڈکری اور نریندر مودی قومی اور بین الاقوامی سطح پر دونوں میں ان کی شخصیت بونی لگتی ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں اڈوانی نے بھاجپا سے کنارہ کرلیا تو پارٹی میں تقسیم تک ہوسکتی ہے کیونکہ سنگھ کی گھٹیا سیاست کی وجہ سے بھاجپا کا کوئی بھی لیڈر دوسرے پر بھروسہ نہیں کررہا ہے۔ اس لئے پارٹی میں کئی گروپ سرگرم ہیں۔ ظاہر ہے ان گروپوں میں لگاتار لڑائی پارٹی کو کمزور کرے گی۔ اگر اندرونی رسہ کشی کے سبب 2014ء میں بھاجپا کو مات ملتی ہے تو اس کے لئے پوری طرح آر ایس ایس ذمہ دار ہوگی۔ اگر آر ایس ایس کو بھاجپا کی فکر ہوتی تو وہ پارٹی میں اتھل پتھل کرانے کیلئے اڈوانی کے خلاف دوسری لائن کے لیڈرں کو اکسانے اور متحد کرنے کا کام نہیں کرتے۔ اگر ان کو ذرا بھی سیاسی سمجھ ہوتی تو وہ سب سے پہلے یعنی اٹل جی کے بعد اڈوانی جی اور ان کے بعد ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب سنگھ خود بھی گمراہی اور عدم اعتماد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگ مانتے تھے کہ اگر بھاجپا اتنی ڈسپلن ہے تو سنگھ کتنا ڈسپلن ہوگا لیکن اب لوگ بھاجپا اور سنگھ میں کوئی رق نہیں کرتے۔ لوگ اب دونوں کو ایک ہی سکے کے دو پہلو مان رہے ہیں۔ اب فیصلہ آر ایس ایس کو کرنا ہے کہ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں اڈوانی کی لیڈر شپ میں بھاجپا چناؤ لڑے گی یا نریندر مودی کے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟