کیا نریندر مودی پردھان منتری عہدے کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں؟



Published On 13 March 2012
انل نریندر
گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ ملک کے اندر تو ان کی اتنی چرچا نہیں ہورہی جتنی غیر ملکوں میں۔ امریکہ کے معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار سیمون ڈینار نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی 2014ء کے عام انتخابات کے بعد پردھان منتری عہدے کے سب سے مضبوط دعویدار ہوں گے۔ بھارت میں کافی لوگ انہیں رول ماڈل کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظر میں وہ ملک کے سب سے اہل نیتا ہیں۔ حالانکہ ایک بڑا طبقہ آج بھی انہیں مسلمانوں کے مجموعی قتل عام کے لئے معاف نہیں کرپایا ہے۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ نریندر مودی کو بھارت کی سیاست میں قدآور نیتا مانا جاسکتا ہے۔ مودی کی رہنمائی میں گجرات جیسے راجیہ کو اقتصادیات کی نئی اونچائیوں کو چھوا ہے۔ لیکن وزیراعلی کی ہندو راشٹریہ وادی ساکھ سے کافی لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی رہنمائی میں کٹر مذہبی طاقتوں کو فروغ ملے گا۔ جمہوریت کی پرانی سیکولر ساکھ کو دھکا لگ سکتا ہے۔ نریندر مودی کو راجیہ میں بھرشٹاچار ختم کرنے کے ساتھ اقتصادی اور انڈسٹری ڈولپمنٹ کو نئی رفتار دینے کا سہرہ جاتا ہے۔تیزی سے آگے بڑھتی گجرات کی اقتصادی حالت میں نہ صرف ملکی کمپنیاں بلکہ بڑی تعداد میں غیر ملکی کمپنیوں نے بھی گجرات میں سرمایہ کاری کی ہے۔ مودی کے تنقید کار بھی انہیں شخصی طور پر بھرشٹ نہیں مانتے۔سال 2014ء میں ہونے والے عام چناؤ کے بعد بھاجپا کی طرف سے وزیر اعظم کے سب سے مضبوط دعویدار ہوسکتے ہیں نریندر مودی۔
شری نریندر مودی کی اس طرح کی پروجیکشن سے جہاں مسلم برادری پریشان ہے وہیں ان کی اپنی پارٹی کے کچھ لوگ بھی خوش نہیں ہیں۔غیر مقیم ہندوستانیوں کے درمیان مودی کو مل رہے وسیع سمرتھن کے چلتے سنگھ پریوار کے اندر بھی تبصرے چل رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ سنگھ کی غیر مقیم ہندوستانیوں میں گہری پیٹ ہے۔ امریکہ، چین اور جاپان کا انڈسٹری حلقہ مودی کے ساتھ معیشت تعلقات کو بہتر بنانے میں لگا ہے۔ حالانکہ بھاجپا اور سنگھ کا ایک بڑا طبقہ مودی کو کنارے لگانے میں لگا ہے تاکہ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں مودی وزیر اعظم عہدے کے امیدوار کی شکل میں طاقتور ہوکر نہ ابھرپائیں۔ اس لئے تنظیمی سطح پرمودی کی چھوی کھلنائک والی بنانے کی بھی کوشش ہورہی ہے۔ اور کچھ حد تک مودی خود ایسی چھوی بنانے کے لئے بارود دے رہے ہیں۔مثال کے طور پر اترپردیش اسمبلی چناؤ میں پرچار نہ کرنا اور دہلی میں ہوئی قومی عہدیداروں کی میٹنگ میں نہ آنا مودی کی تنظیم مخالف سرگرمیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ بہت سے بھاجپائیوں کا کہنا ہے کہ مودی اپنے آپ کو پارٹی سے اوپر سمجھنے لگے ہیں۔ مودی کے دماغ میں اب غرور آگیا ہے۔ دنیا کے سو اثر دار طاقتور کے لئے کرائے جارہے ٹائمس رسالے کے سروے میں مودی نے اوبامہ اور ولادیمیر پوتن کو پچھاڑ دیا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار یعنی وزیر اعظم عہدے کے امیدوار ہوسکتے ہیں لیکن دیش ودیش میں ہورہے سروے میں مقبولیت کے حساب سے نتیش کمار نریندر مودی سے پیچھے ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Modi, Narender Modi, Nitin Gadkari, Nitish Kumar, RSS, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟