چین میں تختہ پلٹ کی افواہ سے لیڈر شپ میں کھلبلی

چین کی اندرونی حالت اتنی اچھی نہیں ہے جتنی دکھائی جاتی ہے۔ کچھ دن پہلے چین میں بغاوت اور تختہ پلٹ کی خبر آئی تھی۔ فوجی تختہ پلٹ کی خبر وں سے گھبرائی چینی لیڈرشپ نے ان سبھی رپورٹوں کو بلاک کردیا ہے جن میں مبینہ طور پر بتایا گیا تھا کہ چین میں تختہ پلٹ کی کوشش ہوئی ہے۔ الائنس کی رپورٹ کے مطابق راجدھانی بیجنگ کی سڑکوں پر ٹینکوں کے اترنے اور لیڈروں کے محفوظ کمپلیکس پر گولیاں چلنے کی خبروں پر امریکہ ۔ برطانیہ سمیت بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے نظر رکھی جارہی ہے۔ رپورٹ میں جس عمارت کی بات کہی گئی ہے وہ چین کے سرکردہ سیاحتی کشش کا مرکز ''فوربڈن سٹی '' کے بالکل قریب ہے۔ چین کی مقبول مائکرو بلاگنگ سائٹ سینا ویجبو اور سرچ انجن ویدو کے بلیٹن بورڈ سبھی نے 19 مارچ کی رات کو بیجنگ میں رونما غیر معمولی واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ان سائٹوں پر بھیجی گئے تبصروں میں کہا گیا ہے دیش کی شنگھائی لیڈر شپ کے گروپ کے زوال کے بارے میں افواہیں ہیں۔ شنگھائی لیڈر شپ گروپ اعلی سطح کے افسران کے لئے بتایا گیا ہے کہ جو شنگھائی ہب سے آتے ہیں اور جو روایتی طور سے پارٹی میں اصلاح پسندوں اور جدید نظریات حامیوں کا گڑھ رہا ہے۔ کچھ اور تبصروں میں دعوی کیا گیا ہے کہ فوجی تختہ پلٹ کی کوشش ہوئی ہے۔ کچھ دیگر رپورٹوں میں گولیاں چلنے اور تیانن من چوک کے قریب جگن اسٹریٹ پر سادی وردی میں سکیورٹی حکام کے جھنڈ دیکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ علاقہ 1989ء میں جمہوریت حامی مظاہرین کے قتل عام کا گواہ تھا۔ ان خبروں سے گھبرائی چینی حکومت نے اس طرح کی سبھی خبروں کو فوج کی انٹر نیٹ یونٹ کی مدد سے ہٹوادیا ہے اور اب انہیں نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان ویب سائٹوں میں لکھا گیا ''پریہ چین کی سرکار ، آپ ہمیشہ بے شکست نہیں رہ سکتے۔آج ویب سائٹوں کو ہیگ کرلیا گیا ہے کل آپ کا اقتدار گر جائے گا۔''
دراصل چین جو دنیا کو اپنی تصویر دکھاتا ہے حقیقت میں وہ تصویر ایسی نہیں۔ چین کے قومی دوس پر بیجنگ کے عام لوگوں کو گھروں میں قید کردیا جاتا ہے اور سڑکوں پر صرف وہی لوگ کھڑے کئے جاتے ہیں جو دکھنے میں خوبصورت ہوں اور انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ انہیں مسکرانا ہے چاہے وہ کتنے ہی تھکے کیوں نہ ہوں، تو کیا ہوا اگر اولمپک تقریب میں ایک چھوٹی سی بچی کے جذبات سے کھیلا جائے اور اسے محض اس وجہ سے اسٹیج پر گانے سے روک دیا جائے کیونکہ وہ دیکھنے میں اتنی خوبصورت نہیں۔اور اس کی جگہ ایسی لڑکی کوکھڑا کیا جائے جو دیکھنے میں پرکشش ہو۔ اس بچی کو صرف ہونٹ ہلانے ہیں آواز تو پیچھے سے آرہی ہے۔ چین کے کئی چہرے اور کئی نقاب ہیں، ہم جو دیکھتے ہیں اس میں سچائی کم اور چھل زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کے چین دنیا کی سب سے تیزی سے ابھر رہی معیشت ہے اور ایک دن دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بھی بن سکتی ہے۔ لیکن چین کے چمکتے چہرے کے پیچھے کئی ایسے پوشیدہ راز ہیں جن کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں جاتی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے اور اپنی پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو سختی سے دبا دیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت چین میں ہی دی جاتی ہے۔ کسی بھی دیگر ملک سے کم سے کم تین گنا زیادہ ہیں یہ۔ 2008 ء میں کل 1718 لوگوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔ یہ تعداد کم ازکم ہے کیونکہ اصلی تعداد تو کبھی سامنے آنے والی بھی نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ چینی ماہرین مانتے ہیں کہ ہر سال کم سے کم 6 ہزار لوگوں کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے تو نہ تو کسی دیگر شخص کا قتل کیا ہوتا ہے اور نہ وہ ملک مخالف دشمنی میں ملوث پائے گئے ہوتے ہیں۔
یہ ہی نہیں نہ وہ آتنک وادی ہوتے ہیں لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے دیش میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو چین میں شہری حقوق کی آواز اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دن اچانک غائب ہوجاتے ہیں اور ان کے سبھی ریکارڈ ضائع کردئے جاتے ہیں یعنی اس نام کا شخص کبھی دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔ کٹر پسندی کی بنیاد پر ہوتی ہے غریب اور امیر کے درمیان امتیاز مٹ جائے، سب ایک ہوں، کوئی بھی شخص غریب نہ ہو، غیر سماجی عدم توازن نہ ہو، چین میں کمیونسٹ حکومت کو برسوں بیت گئے ہیں۔لیکن سماجی حالات آج تک ٹھیک نہیں ہوسکے۔1978 ء میں چین نے اقتصادی اصلاحات پروگرام اپنایا اور ایک طرح سے کٹر پسندی نظریات کو تلانجلی دے دی۔ اس کے بعد اس دیش نے تیزی سے اقتصادی ترقی کی اور اب قریب9 فیصدی ترقی شرح سال درسال پوری کی۔پورے اقتصادی اصلاحات پروگرام''اوپن ڈور پالیسی'' کا نام دیا گیا۔ کاروباریوں کے لئے دروازے کھول دئے گئے۔ عام طور پر توجہ اس بات کی طرف دی گئی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے۔
چین نے صنعتی انقلاب کے نام پر کئی ایسے قدم اٹھائے جس میں اس دیش کا سماجی توازن بگڑ گیا۔ کھیتی کی زمین کم ہوتی گئیاور قدرتی وسائل کم ہوتے گئے اور لوگوں کی اقتصادی حالت میں زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ کیا یہ تعجب خیز نہیں ہے کے برسوں سے 9 فیصدی اقتصادی ترقی شرح حاصل کرتے آرہے دیش کے کروڑوں لوگ آج بھی دو وقت کی روزی نہیں جٹا پاتے۔ چین آج برآمدات پر منحصر ہے اور اس کی زیادہ تر برآمدات امریکہ سے ہوتی ہے۔ اگر امریکہ اپنے خرچوں میں کمی لاتے ہے اور درآمدات شرح کم کرتا ہے تو چین کی اقتصادی حالت کمزور ہوئے بنا نہیں رہے گی۔ چین میں پانی کی بھاری قلت ہے۔ چین میں 617 بڑے شہر ہیں اور ان میں سے آدھے شہروں میں پانی کی پوری طرح دستیابی نہیں ہے۔
راجدھانی بیجنگ میں بھی پانی کی قلت ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق مین لینڈ چین کا پانی کا فی شخص حصہ2700کیوبک میٹر سالانہ ہے جو ورلڈ کے تناسب سے ایک چوتھائی ہے۔ نارتھ چین میں اب پانی حاصل کرنے کے لئے زمین میں گہری کھدائی کی جارہی ہے۔ 10 ہزار برس پہلے جمع پانی چین کو پانی کی قلت سے کچھ حد تک بچاسکتا ہے لیکن اس سے چین زمین کے اندر دراڑیں آسکتی ہیں اور عدم توازن بڑھ رہا ہے۔ طاقتور رہے چین میں سب کچھ اب صحیح نہیں ہے۔ اب اس کی چمک کے پیچھے سیاہ راز چھپے ہیں۔ چین کے اندر حقیقی حالت اچھی نہیں ہے۔ اس کی صحیح جانکاری نہیں مل پاتی کیونکہ چینی حکومت ہر ایسی خبر ، رپورٹ کو دبا دیتی ہے جس سے نئی بے چینی اور فوجی تختہ پلٹ کا خطرہ ہو۔
Anil Narendra, China, Coup, Daily Pratap, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟