زرداری کچھ ٹھوس یقین دہانی کی پوزیشن میں نہیں ہیں
Published On 11 March 2012
انل نریندر
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری بھارت کے بلاوے پر ہندوستان نہیں آئے۔ وہ اپنی مرضی سے اجمیر کی زیارت کیلئے بھارت آئے تھے۔انہوں نے زیارت ہی کی، دہلی تو انہیں اس لئے آنا پڑا کیونکہ راستہ یہیں سے بنتا تھا۔ وہ سیدھے اجمیر تو نہیں جاسکتے تھے۔ جب وہ دہلی آہی رہے تھے تو بھارت اپنی مہمان نوازی کو کیسے بھول سکتا تھا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے اس کے لئے دوپہر کا لنچ رکھا۔ دونوں نیتاؤں میں بند کمرے میں 40-45 منٹ بات چیت ہوئی۔بعد میں کہا گیا کہ بھارت نے آتنک واد اور خاص کر حافظ سعید پر کارروائی کا اشو اٹھایا۔منموہن سنگھ نے 26/11 کے گنہگاروں کو سزا دینے پر زوردیا۔ بتایا جاتا ہے ہند کے خلاف پاک سرزمین سے سر اٹھا رہے آتنک واد کو کچلنے کے لئے صدر زرداری کی توجہ مرکوز کرائی۔ ادھر زرداری صاحب نے کشمیر کے سرکریک، سیاچن اشو کو سلجھانے پر زوردیا۔ پاکستانی سیاستداں خلیل چشتی کی قید کا مسئلہ پاکستان کی جانب سے اٹھایا گیا لیکن منموہن سنگھ نے سربجیت سنگھ کی پھانسی کا اشو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ صدر زرداری کے اس دورہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ آج کی تاریخ میں ان کی اپنے ملک میں حالت بہت کمزور ہے۔ ایک طرف فوج اور دوسری طرف پاکستان سپریم کورٹ زرداری صاحب کی مقبولیت پر زیرو پر ہے۔ ایسے وقت جب ان پر اپنے ملک میں اتنا دباؤ ہو پتہ نہیں کے اجمیر شریف وہ کیا دعا مانگنے آئے تھے؟ ساتھ ہی بیٹے کو بھی لے آئے۔ بیٹے بلاول کو بھی ایک طرح سے بین الاقوامی منظر پر متعارف کرادیا۔ زرداری صاحب کی کوشش یہ ہی ہوگی کہ ان کے بعد نوجوان لیڈر بلاول پاکستان میں اقتدار سنبھالیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں کے یووراج(راہل اوربلاول) کا آپس میں ملنا اچھا رہا۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور زرداری کے درمیان 40 منٹ کی ون ٹو ون بات چیت ہوئی۔ اس میں ہمیں تو شبہ ہے کہ محض 40 منٹ کی بات چیت میں کشمیر، دہشت گردی، سیاچن، سرکریک، ویزا سہولت، حافظ سعید، 26/11کے قصورواروں کو سزا دلوانا ، تجارت سے لیکر کرکٹ وغیرہ اشوز پر مفصل بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ بس ابھی تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان اشوز پر سرسری طور پر تبادلہ خیال ہوا۔ مستقبل کا روڈ میپ تیار ہوا ہے۔ زرداری صاحب آج اس صورت میں نہیں ہیں کہ وہ کسی بھی اشو پر کسی بھی طرح کا تبصرہ کرسکیں۔ پاکستان میں اصل اقتدار پاکستانی فوج کے پاس ہے۔ وہی فیصلہ کرتی ہے کسی اشو پر پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہئے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستانی لیڈر بھارت میں تو وعدہ کرجاتے ہیں لیکن اپنے وطن پہنچ کر وعدے سے مکر جاتے ہیں۔ زرداری صاحب کے سسر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو جب شملہ معاہدے کے لئے بھارت آئے تھے تو طرح طرح کی باتیں ،وعدے کر گر تھے، لیکن پاکستان لوٹتے ہی وہ سب سے مکر گئے۔ زرداری صاحب کے پاس آج کی طرح کوئی مینڈیٹ نہیں ہے وہ کسی بھی اشو پر بھارت سے بات چیت کرسکیں۔اس ملاقات سے نہ تو ادھر اور نہ ادھر کوئی خاص امید لگائی گئی تھی۔ زرداری صاحب آج اپنے گھر میں بری طرح سے مسائل سے گھرے ہوئے ہیں ویسے دیکھا جائے تو بھارت کے وزیر اعظم بھی کم گھرے ہوئے نہیں ہیں لیکن پاکستان میں جس طرح کی پریشانی سے زرداری صاحب دوچار ہیں وہ بھارت سے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کی مشکل اس کی فوج اور خفیہ ایجنسی ہی نہیں ، اس کے اندرونی حالت بھی ہیں۔ اس کے سامنے نیا بحران امریکہ سے خراب رشتے کا بھی ہے۔ حالانکہ پاکستان امریکہ کو چنوتی دیتا نظر آرہا ہے لیکن اس کی اہم وجہ پاکستان میں امریکہ کے تئیں بڑھتی ناراضگی ہے۔ پاکستان اکیلے چین کی حمایت پر ساری دنیا سے نہیں لڑ سکتا اس لئے بھی پاکستان کی اب کوشش ہے کہ پڑوسی بھارت سے رشتے بہتر ہوں۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ زرداری کسی کے اشارے پر بھارت آئے۔ پچھلے کچھ دنوں سے دہشت گردی کا اشو چھوڑ کر تجارت وغیرہ سیکٹر میں پاکستان کے رویئے میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے لیکن پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا بھارت کو اس سے سب سے بڑی شکایت دہشت گردی کو اپنی سرزمین پر بڑھاوا دینا ہے اور اس پر کسی بھی طرح کا کنٹرول آصف زرداری لگانے میں اہل نہیں ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حافظ سعید پر ان کی رائے وہی ہے جو پاکستان سرکار کی ہے۔ ان کا دوسرا اہم تبصرہ یہ تھا کہ انہیں پاکستان سے جانے کے لئے کہہ دیا گیا تھا ۔ ان دونوں بیانات کے اشاروں سے یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ بھارت ان سے بہت امید نہ کرے۔ بات صحیح بھی ہے فوج کے سربراہ جنرل پرویز کیانی اور آئی ایس آئی و جہادی نیتا ہی پاکستانی اقتدار میں اصلی کرتا دھرتا ہیں۔Ajmer Shrif, Anil Narendra, Asif Ali Zardari, Bilawal Bhutto, Daily Pratap, India, Pakistan, Rahul Gandhi, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں