ملئے پاکستان کے یوراج بلاول بھٹو سے



Published On 13 March 2012
انل نریندر
24 سالہ بلاول بھٹو کو بھارت واسیوں نے پہلی بار قریب سے دیکھا جب وہ اپنے والد آصف زرداری کے ساتھ حال ہی میں اجمیرشریف زیارت کرنے آئے تھے۔ ان کا موازنہ بھارت کے یوراج راہل گاندھی سے کیا جارہا ہے۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہوکے اگر راہل گاندھی بھارت کے یوراج ہیں تو بلاول بھٹو پاکستان کے یوراج ہیں۔بلاول بھٹو ابھی انگلینڈ کی آکسفورڈیونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ اپنی ماں بینظیر بھٹو کے پہلی بار وزیراعظم بننے کے ایک ماہ پہلے ستمبر1988ء میں پیدا ہوئے بلاول کو اپنی ماں کے قتل کے تین دن بعد ہی اس پارٹی (پی پی پی) کی باگ ڈور سنبھالنی پڑی جسے بھٹو پریوار نے اپنے خون سے سینچا تھا۔ان کی زندگی نے بھی کچھ ویسی ہی کروٹ لی ہے جیسی ان کی ماں بینظیر بھٹو کی زندگی نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد لی تھی۔ حالانکہ بلاول کی ماں بینظیر کے سنگھرش کا ایک لمبا اتہاس لکھنے کی شروعات بھر کرتے دکھ رہے ہیں۔ بلاول پر لگتا ہے کہ سب سے زیادہ اثر اپنی ماں بینظیر کا پڑا ہے۔ سیاست اور پرسنل وجوہات سے وہ اپنے نام کے آگے بھٹو لکھنا پسند کرتے ہیں ،زرداری نہیں۔ قاعدے سے ان کا پورا نام بلاول زرداری ہونا چاہئے تھا لیکن وہ بلاول بھٹو لکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بلاول کے بچپن پر پاکستان کی سیاست کا اثر چاہے ان چاہے طریقے سے ہمیشہ ہی پڑا۔ جب11 سال کی عمر میں انہوں نے پاکستان چھوڑاان کی ماں اپنے سیاسی مستقبل کی لڑائی لڑ رہی تھیں اور ان کے والد اور اب دیش کے صدر آصف علی زرداری جیل میں تھے۔ بلاول کا بچپن اور پڑھائی زیادہ تر پاکستان سے باہر ہوئی۔ پڑھائی ان کی دوبئی اور برطانیہ میں ہوئی۔ اپنی ماں کی طرح انہوں نے بھی آکسفورڈ سے اپنی پڑھائی کی ہے۔ پچھلے سال اپنے والد آصف علی زرداری کی طبیعت خراب ہونے پر وہ پاکستان آئے اور پاکستان کی طوفانی سیاست میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ اپنے اسٹیٹس کی وجہ سے برطانیہ میں بھی عام طالبعلم کی طرح نہیں رہ پائے۔دہشت گردوں کا ٹارگیٹ ہونے کی وجہ سے برطانیہ سرکار کو بھی آکسفورڈ میں پڑھائی کے دوران ان کی حفاظت پر سال بھر میں قریب ایک ملین پاؤنڈ یعنی قریباً8 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔ان کی ماں نے ان کا نام بلاول رکھا جس کا مطلب ہوتا ہے ،جس کے برابر کوئی نہ ہو۔ جون2010ء میں بلاول آکسفورڈ یونیورسٹی سے اپنی پڑھائی پوری کر اپنے وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ جب وہ دہلی اور اجمیر حال ہی میں آئے تو 7 ریس کورس روڈ میں ان کی ملاقات بھارت کے یوراج راہل گاندھی سے ہوئی۔ راہل بلاول کی بالکل برابر والی کرسی پر بیٹھے تھے۔دونوں کے درمیان غیر ضروری بات چیت کے کئی دور ہوئے۔دونوں کے بیچ بہت کچھ ایک جیسا ہے۔ دونوں کے پریوار اپنے اپنے ملکوں میں اہم سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر راہل کے والد راجیو گاندھی آتنک واد کا شکار ہوچکے ہیں تو بلاول کی ماں بینظیر کا قتل بھی دہشت گردوں نے کیا۔ خاندانی وراثت کے چلتے بلاول کو پارٹی سربراہ کا عہدہ طشتری میں سجا ہوا مل گیا۔ کچھ ایسے ہی راہل کی سیاست میں بڑھتا گراف دیکھا جاسکتا ہے۔ ہاں ایک فرق ہے کے راہل نے بلاول کی طرح یکا یک پارٹی صدر کا عہدہ نہیں سنبھالا ہے۔ بلاول پاکستان میں ایک نئی آب و ہوا ، سوچ لاسکتے ہیں لیکن انہیں ایسا کرنے کیلئے بہت لمبے چنوتی پورن راستے کو طے کرنا ہوگا۔ فی الحال بلاول بھارت میں ایک اچھی چھاپ چھوڑ گئے ہیں اور ایک نئی امید۔
Anil Narendra, Asif Ali Zardari, Benazir Bhutto, Bilawal Bhutto, Daily Pratap, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!