مغربی بنگال سے کارلمارکس اور اینجلس کی بدائی



Published On 11 March 2012
انل نریندر
مغربی بنگال میں 34 سال تک کامریڈوں نے کارلمارکس کی پالیسیوں پر چل کر راج کیا۔ اس دوران ساری دنیا سے کارلمارکس اینجلس کا نام و نشان تقریباً مٹ چکا ہے لیکن ہمارے کامریڈ اسی لائن پر چلتے رہے ہیں۔ یہ وقت کے مطابق بدلتے نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا مغربی بنگال کی عوام نے انہیں اکھاڑ پھینکا۔ صرف مغربی بنگال سے ہی نہیں بلکہ کیرل سے بھی۔ ممتا بنرجی اب کوشش کررہی ہیں کہ کارلمارکس واد واپس مغربی بنگال میں نہ آسکے۔اس لئے انہوں نے34 سال پہلے اس کی تیاری کرلی تھی۔ پردیش کی اسکولی تعلیمی نصاب کمیٹی نے مارکس اور فیڈرکس اینجلس کا سبق اسکولی کتابوں سے ہٹانے کی سفارش کی ہے۔ فیصلہ ممتا سرکار کو کرنا ہے۔ اسکولی کتابوں سے جو اہم اسباق ہٹائے جارہے ہیں ان میں مارکس واد کے بانی کارلمارکس کی سوانح حیات اور مارکس کی مدد کرنے والے دوست فیڈرکس اینجلس کی کہانی اور روس میں 1917 ء میں بالے شیوک انقلاب کی پوری کہانی ہے۔ ترنمول اقتدار میں آتے ہی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے نصاب جائزہ کمیٹی بنائی تھی۔ اس جائزہ کمیٹی تو اسکولی نصاب کو جدید بنانے اور طلبا پر غیر ضروری بوجھ کم کرنے کا کام سونپا گیا۔ کمیٹی نے 695 صفحات کی رپورٹ سونپی ہے۔ ممتا اکیلی نہیں جنہوں نے کارلمارکس سے نجات پانے کے لئے قدم اٹھائے ہیں۔ اب تو ہمارے کامریڈ بھی کہنے لگے ہیں کہ ہمیں دیش کے موجودہ حالات کے مطابق بدلنا ہوگا۔ مارکس وادی لیڈر سیتا رام یچوری نے پارٹی کے 20 ویں آل انڈیا سمیلن میں کہا کہ ہمیں روس، چین ، کیوبا اور دیگر لاطینی امریکی دیشوں کی کمیونسٹ پارٹیوں سے الگ تھلگ نظریہ اپنانا ہوگا۔ پارٹی اصول بدلنے کی ساتھ ہی اپنے پروگراموں کا جائزہ لے گی۔ پارٹی جمہوری طاقتوں اور لیفٹ طاقتوں کو ہلاکر سیاسی متبادل بنانے کے عمل میں ہے۔ کانفرنس میں پیش ریزولیوشن میں کہا گیا ہے کہ 1894ء کے اراضی ایکٹ کا کارپوریٹ گھرانے بیجا استعمال کررہے ہیں۔ خاص اقتصادی سیکٹر کے واسطے زمین ایکوائر اور کھانوں کی کھدائی کے لئے ایسا ہوتا ہے۔ اس قانون کے سبب دیش کے کئی کسانوں اور زرعی مزدوروں کو جدوجہد کرتے دیکھا گیا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مارکس وادی پارٹی اپنی ہار سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتی۔ وہ کانگریس اور بھاجپا کو ہرانے کی بات تو کررہی ہے لیکن اس کے روڈ میپ میں تیسرے متبادل کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اس کے برعکس وہ لیفٹ جمہوری متبادل کے لئے کوشش کرنے کی بات کررہی ہے مگر ایسا کوئی متبادل ہوا میں تو تیار نہیں ہورہا ہے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں ہیں لیفٹ پارٹیوں کی سیٹیں پچھلی مرتبہ کے مقابلے آدھی سے کم رہ گئی تھیں اگرچہ امکانی پس منظر کو دیکھیں تو نتیش کمار ، جے للتا، ممتا، نوین پٹنائک اور چندرا بابو نائیڈو کے رہتے غیر کانگریس اور غیر بھاجپائی سیاست میں مارکس وادی پارٹی کے لئے جگہ نظر نہیں آرہی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ پارٹی آج بھی اندرونی رسہ کشی اور گروپ بندی کا شکار ہے۔وہ مانے یا نہ مانے لیکن کیرل میں پارٹی آپسی اختلافات اور گروپ بندی کے سبب ہی ہاری ہے۔ پارٹی سکریٹری جنرل پرکاش کرات کی بیڑا غرق کرنے والی پالیسیاں جب تک نہیں بدلتیں تب تک ہمیں بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی مستقبل چمکتا دکھائی نہیں پڑتا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Kolkata, Mamta Banerjee, Vir Arjun, West Bengal

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟