پہلے سے ہی لاچار یوپی اے سرکار کیلئے چنوتیاں منہ پھاڑے کھڑی ہیں



Published On 11 March 2012
انل نریندر
یوپی اے کی سرکار کی میعاد 2014ء تک ہے۔ اب سے عام چناؤ کا وقت منموہن سنگھ حکومت کے لئے کانٹوں بھرا ہوگا۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ نتائج نے یوپی اے حکومت کے لئے مشکلیں اور بڑھا دی ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے تقریباً لاچار منموہن سرکار اگلے دو سال کس طرح سے طے کرے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکار اپنی میعاد کے آخری دو برسوں میں پوری طاقت جھونک دیتی ہے اور عوامی مفاد کے قدم اٹھاتی ہے تاکہ پچھلے برسوں کی عوام کو درپیش تکلیفیں بھول جائیں لیکن اس حکومت کے لئے اب زیادہ عوامی مفادی قدم اٹھانا بھی مشکل ہوجائے گا کیونکہ وہ اب لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپنی منمانی اتنی آسانی سے نہیں کر سکے گی۔ وہ اہم بل نہیں لا سکتی کیونکہ دونوں ایوان کی پوزیشن پہلے سے بھی کمزور ہوجائے گی۔ ایک طرح سے یہ کہیں کہ یوپی اے سرکار پر ضابطہ لاگو ہوگیا ہے۔ یوپی نتائج سے صاف ہے کہ علاقائی پارٹیاں مضبوط ہورہی ہیں اور مرکز کمزور۔ ایسے میں کانگریس اکثریت والی یوپی اے کے سامنے کئی چیلنج کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس وقت منموہن سرکار کے سامنے کم سے کم پانچ چیلنج ہیں جن پر عبور کرپانا اس کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ بہار، مغربی بنگال، تاملناڈو، اترپردیش، گووا، مہاراشٹر ہر ریاست میں کانگریس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ آنے والی جولائی میں صدارتی چناؤ ہونا ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے مضبوط ہونے کے بعد اب کانگریس کے لئے اپنی پسند کا صدر چننا اور اس کو منتخب کروانا آسان نہیں ہوگا۔الیکشن منڈل اور پانچ ریاستوں کے ممبران کے ووٹوں کو جوڑ کر صدارتی چناؤ کے لئے طاقت بنتی ہے۔ یوپی اے میں بھاری کامیابی کے بعد سماجوادی پارٹی کے 83824 ووٹ ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ممتا کے 54640 ووٹ ، جے للتا کے 35392 ووٹ کی طاقت کانگریس کے خلاف متحد ہوگی۔ یہ صدارتی چناؤ کے لئے ضروری کچھ ووٹوں کا 16 فیصد ہے اس لئے کانگریس کو ایسا امیدوار لانا ہوگا جو بی جے پی سمیت سبھی علاقائی پارٹیوں کو منظور ہو۔ مارچ میں ہونے والے نائب صدر کاچناؤکانگریس کے لئے پہلی چنوتی ہوگی۔ یوپی اے کے سامنے پارلیمنٹ میں ایف بی آئی غذائی سکیورٹی بل جیسے درجنوں بل پاس کرانے کی چنوتی اب پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ جوڑ توڑ کے سہارے سرکار لوک سبھا میں بیشک اہم بل پاس کروالے لیکن راجیہ سبھا میں شاید اتنا آسان نہ ہو۔ راجیہ سبھا میں تو ویسے ہی کانگریس اقلیت میں ہے اور اب اپوزیشن اور زیادہ مضبوط ہوجائے گی کیونکہ اسی ماہ راجیہ سبھا کے 10 ممبران کا چناؤ ہونے جارہا ہے۔ سپا کی بھاری کامیابی کے بعد ان کے پانچ چھ نئے ممبر آسکتے ہیں۔ ایسے میں سپا جیسی علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی بھی بل پاس کرانے کے لئے یوپی اے کو ملائم ، ممتا سمیت بھاجپا اور دیگر علاقائی پارٹیوں کی حمایت اور تجاویز لینی پڑیں گی۔ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا دیش منموہن سرکار کو نقصاندہ اقتصادی ترجیحات سے لڑ رہا ہے۔ اقتصادی خسارے کو کم کرنے کے لئے سخت بجٹ لانا اور پاس کروانا پرنب مکھرجی جیسے سلجھے لیڈر کے لئے بھی اب آسان نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس 12 مارچ سے شروع ہورہا ہے۔ اپوزیشن کے حملوں کے ساتھ ترنمول کانگریس سے چل رہی ان بن کے درمیان سرکار کو بجٹ پاس کرانا ہے۔ مہنگائی سے لڑتی جنتا پر بجٹ میں کسی بھی طرح کے سخت قدم تھونپنے کی بھاجپا سمیت یوپی اے کی تمام اتحادی پارٹیاں مخالفت کریں گی۔ نتیجہ آنے سے ٹھیک پہلے سی این جی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔ پیٹرول کے دام بھی بڑھانے پر غور و خوص جاری ہے ایسے میں منموہن سرکار کے لئے اپنی عوامی مفاد کی اسکیموں کو پار لگانے کے لئے مزید بوجھ ڈالنا اب پہلے سے بھی مشکل ہوگا اور اگر وہ پیسہ نہیں دستیاب کراپائی تو ان عوامی مفاد کی اسکیموں کا کیا ہوگا؟ مرکز اور کانگریس میں این سی ٹی سی یعنی قومی انسداد مرکز کی تشکیل اس کے وقار کا اشو بنا ہوا ہے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم اس کے قیام پر تلے ہوئے ہیں اور اسے پاس کرانا چاہتے ہیں۔ مرکز کے اس فیصلے کی ممتا بنرجی ، نتیش کمار، نوین پٹنائک، شیو راج سنگھ چوہان، نریندر مودی، رمن سنگھ کی مخالفت میں اب ملائم سنگھ اور گووا کے وزیر اعلی بھی شامل ہوں گے۔ ایسے میں بغیر ان کی رضا مندی کے یہ بل پاس نہیں ہوسکتا۔ ان اسمبلی انتخابات سے صاف ہوگیا ہے کہ علاقائی پارٹیوں کے مقابلے کانگریس اور بھاجپا کمزور ہوئی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کیا ایک بار پھر چوتھے مورچے کی کوششیں شروع ہوں گی؟ ابھی لوک سبھا میں سپا کے 22 ایم پی ہیں جو حکومت کو باہر سے حمایت دے رہے ہیں۔ یوپی کے نتیجوں کے بعد مہنگائی، کرپشن، بے روزگاری وغیرہ جیسے اشوز پر سپا کا دوسری پارٹیوں کے ساتھ ایک چوتھا مورچہ کھڑا کرنے کے امکان سے کانگریس کے لئے چنوتیاں بڑھ گئی ہیں۔ اگلے دو سال میں منموہن سنگھ سرکار کے اور زیادہ لاچار ہونے کا امکان ہے۔ دیکھیں ان منہ پھاڑتی چنوتیوں سے وہ کیسے نمٹتی ہے۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Manmohan Singh, Mulayam Singh Yadav, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟