وجے بہوگنا نے وزیر اعلی کے عہدے کا حلف تو لے لیا لیکن آگے کیا ہوگا؟



Published On 15 March 2012
انل نریندر
کافی جدوجہد کے بعد منگل کے روز ممبر پارلیمنٹ وجے بہوگنا نے دہرہ دون میں بطور اتراکھنڈ کے وزیر اعلی حلف لے لیا۔ دہرہ دون کے پریڈ گراؤنڈ میں جب بہوگنا وزیر اعلی کا حلف لے رہے تھے تو وہاں کانگریس کے محض15 ممبران اسمبلی موجود تھے۔ وزیر اعلی نہ بنائے جانے پر اتراکھنڈ کانگریس میں بغاوت ہوگئی ہے۔ اترپردیش کے طاقتور لیڈر ہریش راوت سخت ناراض ہیں ۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے۔ الموڑہ سے چنے گئے ایم پی اور ہریش راوت حمایتی پردیپ ٹمٹا نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ وجے بہوگنا انہیں قطعی قبول نہیں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ بھلے ہی بہوگنا وزیر اعلی بن گئے ہیں لیکن اسمبلی کا منہ نہیں دیکھ پائیں گے۔ اسی وجہ سے بہوگنا نے اکیلے حلف لیا اور کسی اور وزیر کو حلف نہیں دلایا جاسکا۔ کہا تو یہ جارہا ہے کہ ہریش راوت نے پیر کی رات استعفیٰ دینے سے پہلے بی جے پی صدر نتن گڈکری سے ملاقات کی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے بھاجپا سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ آسکتے ہیں بشرطیکہ بھاجپا ان کو وزیر اعلی بنائے۔بھاجپا اس حکومت کو باہر سے حمایت دے سکتی ہے۔ غور طلب ہے کہ اپنی دعویداری کمزور پڑنے کے بعد ہرک سنگھ راوت نے بھی ہریش راوت کو حمایت دے دی تھی۔ ہرک سنگھ راوت نے بغاوتی انداز میں کھلے عام کہا کہ اتراکھنڈ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ غلط ہے۔ ایسے حالات میں سرکار بن بھی جاتی ہے تو زیادہ دن نہیں چلے گی۔ وزیر اعلی نہ بنائے جانے سے ناراض ہریش راوت نے صبح سے ہی پارلیمانی وزیر مملکت کے عہدے سے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو بھیج دیا تھا۔انہوں نے کانگریس صدر کو بھی خط بھیجا ہے خط میں انہوں نے کہا کہ ان کے حمایتیوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔ اس سے پہلے 2002ء میں بھی راوت وزیر اعلی کے طاقتور دعویدار تھے لیکن عین وقت پر اعلی کمان نے نارائن دت تیواری کو وزیر اعلی بنا دیا تھا۔ کانگریس اعلی کمان کو شاید یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وزیر اعلی کے انتخاب پر پارٹی کے ممبران اسمبلی بغاوت کرسکتے ہیں۔ اسی لئے بغیر وزیر اعلی بنے ہی ممبران کی اکثریت کا دعوی گورنر کے سامنے پیش کردیا۔ اکثریت تو ثابت کردی تھی گورنر نے تب کہا کہ آپ کے پاس نمبر تو ہے آپ پہلے نیتا چنے جائیں، ویسے شری وجے بہوگنا پڑھے لکھے قابل شخص لگتے ہیں۔ 65 سالہ وجے سابق یوپی کے وزیر اعلی ہیموتی نندن بہوگنا کے بیٹے ہیں اور یوپی کانگریس نیتا ریتا بہوگنا کے بھائی ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں بہوگنا خاندان کی اچھی پکڑ ہے۔ وجے ایک سابق ہائی کورٹ جج ہے اور ان کی ساکھ صاف ستھری ہے۔ ان کا انتخاب اس لئے بھی ہوا ان سے پہلے بھاجپا کے وزیر اعلی بھون چندر کھنڈوی کی ساکھ بھی صاف ستھری تھی۔ کانگریس چاہتی تھی کہ صاف ستھری ساکھ والا ہے شخص کھنڈوری کا جانشین بنے۔ گولف کے شوقین بہوگنا نے 2007ء میں بھاجپا کی آندھی کے وقت بھی اپنی پارلیمنٹ کی سیٹ نکال لی تھی۔ اس اسمبلی چناؤ میں بھی وجے کانگریس چناؤ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے کافی محنت کی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہریش راوت اینڈ کمپنی کو اعلی کمان منا پائے گا؟ منا بھی لیا تو یہ حکومت کتنے دن چلے گی اور مضبوط رہے گی؟ ابھی تو وزرا کے انتخاب اور محکموں کے انتخاب پر خانہ جنگی شروع ہوگی۔
بھاجپا کو تو اپوزیشن میں ہی بیٹھنا چاہئے۔ جن آدیش تو آخر ان کے خلاف ہی تھی ۔جوڑ توڑ کر سرکار بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔اکثریت سے چار سیٹیں کم لاکر اتراکھنڈ میں کسی طرح سرکار بنانے کی پوزیشن میں پہنچی کانگریس کے ہریش راوت کی ناراضگی اچھا اشارہ نہیں ہے۔ بھلے ہی پارٹی راوت کو منا لے یا فی الحال ان کی ناراضگی کو دبا دے لیکن ان کے مینڈیڈ کو نظرانداز کرنا کانگریس کا قدم دوراندیشی نہیں مانا جاسکتا۔ ویسے بھی جب نمبروں کا کھیل صحیح نہ ہو تو کانگریس کو اپنا سب سے مضبوط گھوڑا آگے کرنا چاہئے تھا۔ راوت صرف وزیر اعلی کے عہدے کے دعویدار نہیں تھے بلکہ سب سے زیادہ ممبران اسمبلی بھی ان کے ہی ساتھ ہیں۔ ان کی تعداد کا اندازہ 17 سے20 لگایا جاسکتا ہے۔ معاملے کے پیش نظر پورے حالات ریاست کی کانگریس حکومت کے استحکام کو لیکر سوال کھڑا کرنے والے ہیں۔اسے دیکھتے ہی ریاست میں اپنی ہار قبول کرچکی بھاجپا کو سنجیونی مل گئی ہے۔ بھاجپا نیتا اب یہ غور کرنے لگے ہیں کہ آخر کار اتراکھنڈ میں بھاجپا کی ہی سرکار بنے گی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Harish Rawat, Uttara Khand, Vijay Bahuguna, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟