اسرائیلی سفارتکار پر حملے میں فری لانس صحافی کی گرفتاری
Published On 13 March 2012
انل نریندر
13 فروری کو نئی دہلی کے انتہائی سکیورٹی والیعلاقوں میں سے اورنگ زیب روڈ پر واقع اسرائیلی خاتون سفارتکار ٹال یوہوشوا کی کار کے پچھلے حصے میں ایک موٹر سائیکل سوار نے میگنیٹک ڈوائز بریکٹ میں اسٹکی بم چپکا دیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ہوئے دھماکے سے کار میں آگ لگ گئی تھی۔ خاتون سفارتکار و کارڈرائیور منوج زخمی ہوگئے تھے۔ تین دیگر گاڑیاں میں اس کی ضد میں آئی تھیں۔ دہلی پولیس نے اس دھماکے کے سلسلے میں ایران سے وابستہ ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔اس شخص نے اپنے آپ کو ایک نیوز ایجنسی کا صحافی بتایا ہے۔ اس کا نام سید محمد کاظمی 50 برس ہے اور وہ ایرانی نیوز ایجنسی کے لئے کام کرتا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے سید محمد کاظمی کی گرفتاری کے سراغ بینکاک سے ملے تھے۔ خیال رہے جس دن دہلی میں کار بم لگایا گیا تھا ٹھیک اسی دن بینکاک میں بھی ایک دھماکہ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ دہلی میں ہوئے دھماکے کے تار نہ صرف بینکاک سے جڑے ہیں بلکہ جارجیہ سے بھی جڑے ہیں۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ سفارتکار کی کار پر بم دھماکے کی پہلی کامیابی بھی اسی کا نتیجہ ہے ۔ فی الحال پولیس اس حملے کے پیچھے شامل تنظیم کا نام نہیں بتا رہی ہے لیکن کہیں نہ کہیں اس حملے کے پیچھے ایرانی تنظیم کنڈس (کیو یو ڈی ایس) کے ہاتھ ہونے کا اندیشہ ضرور ظاہر کیا جارہا ہے۔ دراصل بینکاک میں ہوئے دھماکے کے بعد وہاں سے کچھ مشتبہ ایرانی فرار ہوگئے تھے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ بینکاک پولیس کو اس خاتون کے گھر کی تلاشی میں ایک ٹیلی فون ڈائری ملی جس میں کاظمی کا موبائل نمبر تھا۔ کاظمی کے خلاف کئی اہم ثبوت ملے ہیں۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حملوں کے پیچھے ایرانی فوج کی اسپیشل فورس ہے جسے خاص طور سے ایران۔ عراق جنگ کے وقت بنایا گیا تھا۔ محمد کاظمی کو اطلاعات اکھٹی کرنے کے لئے ڈالر میں ادائیگی کی گئی تھی۔ دھماکے میں جس موٹر سائیکل کا استعمال کیا گیا تھا وہ قرولباغ علاقے سے کرائے پر لی گئی تھی۔ حملہ آور بیرون ملک سے آکر پہاڑ گنج کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ اسٹیکی بم اسی ہوٹل میں تیار کیا گیا۔ پورے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ غیر ملکی بمبار جس نے اورنگ زیب روڈ میں کار پر بم لگایا تھا وہ وزارت داخلہ کی لاپروائی کے سبب اسی دن اندرا گاندھی ہوائی اڈے سے جنوبی ایشیا کی کسی ملک کی فلائٹ میں سوار ہوکر بھاگ گیا۔ تین بجے کے قریب دوپہر کو بم لگانے کے آٹھ گھنٹے بعد وہ ہندوستان سے نکل گیا۔ وزارت داخلہ یا کسی اور سرکاری ایجنسی سے ہوائی اڈے پر امیگریشن کو مطلع نہیں کیا کہ مشتبہ افراد کو روکا جائے، پوچھ تاچھ کی جائے۔ وزارت داخلہ کی یہ چوک اس لئے بھی تشویش کا باعث ہے کہ بم دھماکہ ہونے کے فوراً بعد اسرائیل نے کہہ دیا تھا کہ حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ امیگریشن میں ہر ایرانی کی روک کر تلاشی لی جانی چاہئے تھی، جو نہیں لی گئی اور حملہ آور بھاگنے میں کامیاب رہا۔ اس معاملے میں گرفتار محمد احمد کاظمی کے رشتے داروں نے دہلی کے پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے کہا ہے کہ دہلی پولیس کے ذریعے برآمد اسکوٹی ان کے ایک رشتے دار کی ہے۔ قریب دو سال سے وہ ان کے گھر پر کھڑی تھی۔ خاندان کا کوئی ممبر اس اسکوٹی کا استعمال نہیں کرتا ۔ محمد کاظمی کے دوسرے بیٹے شوزیب کاظمی نے گرفتارمیمو پر دستخط کے لئے پولیس پر دباؤ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ اپنے گھر پر کسی ایرانی کے آکر ٹھہرنے سے بھی انکار کیا۔ رشتے داروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کربلا معاملے میں ان کے والد نے سرگرم رول نبھایا تھا۔ بی کے دت کالونی میں ان کا اکیلا مسلم خاندان رہتا ہے۔ پیشے سے صحافی محمد احمد کاظمی بنیادی طور سے میرٹھ کا باشندہ ہے۔ سینئر صحافی سعید نقوی نے محمد کاظمی کی گرفتاری کو لیکر دہلی پولیس کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے امریکہ۔ اسرائیل کے اشارے پر صحافی کو اسرائیلی سفارتخانے کار دھماکے میں زبردستی گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کی بنیاد بھی پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ کے اشارے پر ارب ملکو ں میں بغاوت ہورہی ہے اس کی سچائی کو سید محمد کاظمی نے دنیا کے سامنے رکھا اور اسی وجہ سے امریکہ اسرائیل کے دباؤ میں دہلی پولیس نے انہیں گرفتار کیا ہے۔ دہلی پولیس کو اپنا کیس مضبوط کرلینا چاہئے کیونکہ اس کیس پر نہ صرف دیش کے اندر ہی بلکہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس معاملے میں دہلی پولیس کا وقار ایک بار پھر داؤ پر لگا ہے۔Anil Narendra, Daily Pratap, Delhi, delhi Police, Iran, Israil, Mohd. Ahmed Kazmi, Terrorist, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں