ایک اور ایماندار افسر کھدان مافیا کا شکار بنا



Published On 13 March 2012
انل نریندر
مرینہ ضلع میں ایک نوجوان آئی پی ایس افسر نریندر کمار کے بے رحمانہ قتل سے ایک بار پھر واضح ہوگیا کہ غیر قانونی کھدائی مافیہ سے ٹکرانا کتنا خطرے کا کام ہے۔ مافیہ سے ٹکرانے کی قیمت نریندر کمار جیسے ایماندار افسر کو اپنی جان گنوا کر چکانی پڑی ہے۔ مدھیہ پردیش کے بانمور میں جانباز پولیس افسر نریندر کمار سنگھ کے قتل سے وابستہ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کرپٹ اور مجرمانہ عناصر کی سسٹم کے اندر کتنی گہری گھس پیٹھ ہے کہ وہ اپنا مفاد پورا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس نوجوان افسر کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اس علاقے میں ہورہی اندھا دھند غیر قانونی کھدائی پر اعتراض کیا تھامگر بلوا پتھر سے لدی ایک ٹریکٹر ٹرالی کے ڈرائیور کو یہ ناگوار گذرااور اس نے انہیں روندھ ڈالا۔ وہ بھی پولیس چوکی سے محض 500 میٹر کی دوری پر۔ 2009ء بیچ کے آئی پی ایس افسر نریندر کمار سنگھ کی پوسٹنگ 16 جنوری کو مرینا کے بانمورمیں ایس ڈی او پی کی شکل میں ان کی تقرری ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک مہینے میں ناجائز کھدائی کے 20 سے زیادہ معاملے درج کئے تھے۔ یہ کھدائی مافیا کی آنکھوں میں کرکری بن گئے تھے۔ اسی وجہ سے قتل کی سازش کی قیاس آرائیاں بھی لگائی جارہی ہیں۔ نریندر کمار جمعرات کو سرکاری جیپ میں گشت پر نکلے تھے۔ انہوں نے بولڈروں سے بھرا ایک ٹریکٹر اے بی روڈ پر دیکھا اس کا پیچھا کیا۔ ان کے کہنے پر ڈرائیور منوج گرجر نے ٹریکٹر روکا جیسے ہی نریندر ٹریکٹر کے پاس پہنچے ڈرائیور نے ٹریکٹر اسٹارٹ کرکے آگے دوڑا دیا۔ نریندر نے کسی طرح ٹریکٹر پر قبضہ جما لیا۔ منوج نے گاڑی کو کچے راستے پر اتاردیا۔ نریندر جھٹکا لگ کے نیچے گر پڑے اور پہئے کے نیچے آگئے اور کچھ دور جاکر ٹرالی بھی پلٹ گئی۔ شدید زخمی نریندر کو گوالیار کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں مردہ قراردے دیا۔ نریندر کا نام اس فہرست میں ایک اور نام ہے جنہوں نے اپنی فرض کی ادائیگی کو دلیری سے انجام دیا لیکن سسٹم اور مافیا کے گٹھ جوڑ کے آگے وہ بھی شہید ہوگئے بدقسمتی سے پچھلے مہینوں میں ایسے درجنوں معاملے سامنے آئے ہیں جن میں سینئر سے اور کلرک کرمچاری کے یہاں انکم ٹیکس چھاپے میں کروڑوں روپے کی ناجائز املاک کر پردہ فاش ہوا ہے وہیں ایماندار سرکاری ملازمین کی پراسرار موتیں ہورہی ہیں۔ اس سب کی گھناؤنے مثال تو اترپردیش کا این ایچ آر ایم گھوٹالہ ہے جس میں اب تک 9 افسر کرمچاری کی جانیں جاچکی ہیں۔ 2003 ء میں بہار میں انجینئر ستیندر دوبے کے قتل سے شروع ہوا یہ سلسلہ آئی پی ایس افسر نریندر کمار تک جڑ گیا ہے۔ اسی دوران کرپٹ مشینری کی پول کھولنے والے کئی آر ٹی آئی ورکروں کے بھی قتل سے صاف ہے کہ کرپشن کے خلاف لوہا لینا مسلسل مشکل ہوتا جارہا ہے۔
شیوراج سنگھ چوہان بھلے ہی کسی سازش سے انکار کررہی ہے مگر جیسا کہ متوفی افسر کے والد نے الزام لگایا ہے کہ انہیں مقامی سطح پر پولیس اور دیگر محکموں کی مدد نہیں مل رہی تھی حال ہی میں نریندر سنگھ کی حاملہ آئی پی ایس بیوی کا تبادلہ بھی سیاسی دباؤ میں کیا گیا تھا اس لئے بھی تشویش کی بات ہے کیونکہ کھدائی مافیا نے جس طرح سے اپنا جال بچھایا ہے اس کا پتہ لگانا کسی بھی افسر کے لئے بہت مشکل ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی سرپرستی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش سرکار آج کٹہرے میں کھڑی ہے ۔ جوڈیشیل انکوائری تو ٹھیک ہے لیکن ایماندار افسروں کی سلامتی کی ذمہ داری آخر کس کی ہے۔ کتنے اور نریندر سنگھ کی قربانی دینی پڑے گی؟
Anil Narendra, Corruption, Daily Pratap, IPS Officer Killing, Madhya Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟