بھاجپا کیا ایسے لائے گی اترپردیش میں رام راجیہ؟



Published On 7th January 2012
انل نریندر
چناؤ کے وقت ہر سیاسی پارٹی کو اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنے چاہئیں۔ ان کے ہر قدم کو مائیکرو اسکوپ سے دیکھا جائے گا اور ان کے سیاسی حریف ہر غلطی کا خوب سیاسی پروپگنڈہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اترپردیش کے قومی دیہی ہیلتھ مشن گھوٹالے میں پھنسے مایاوتی کے قریبی سابق وزیرصحت بابو سنگھ کشواہا کے بھاجپا میں شامل ہونے سے ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے اور کشواہا بھاجپا کے گلی کی ہڈی بن گئے ہیں۔ اترپردیش چناؤ سے ٹھیک پہلے ایسی متنازعہ شخصیت کو پارٹی میں لینا خطرے بھرا فیصلہ ہے۔ 15 روز پہلے پارلیمنٹ میں کرپشن کے اشو پر سب سے زیادہ شور مچانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملزم بابو سنگھ کشواہا کو پارٹی میں شامل کرنے سے بھی پرہیز نہیں کیا۔ اس کے اس الزام میں بیشک دم ہے کہ کشواہا کے بھاجپا میں آنے کے محض24 گھنٹے کے اندر ہی سی بی آئی کو ان کے ٹھکانوں پر چھاپہ مارنے کا خیال کیسے آیا؟ مگر یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ خود اس کے سینئر لیڈر بشٹ سمیا نے وزیراعلی مایاوتی اور اس کے ساتھی کشواہا کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات لگائے تھے۔ کیا پارٹی پردھان نتن گڈکری کو یہ پتہ نہیں تھا کہ سابقہ پریوارکلیان منتری بابو سنگھ کشواہا کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے سنگین الزام لگائے گئے تھے۔ ساتھ ہی دو سابق سی ایم او اور ایک سابق ڈپٹی سی ایم او کے قتل کے معاملے میں ملوث ہونے کے الزامات بھی کشواہا پر ہیں؟ ان کو پارٹی میں شامل کرنے کو لیکر بھاجپا میں مہابھارت چھڑ گیا ہے۔ جہاں بھاجپا کے قومی صدر نتن گڈکری اور بھاجپا کے پسماندہ طبقے کے نیتا کشواہا کے بچاؤ میں کھڑے ہوگئے ہیں ۔وہیں پارٹی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج سمیت پارٹی کے کئی بڑے نیتا ان کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے اختلاف کے چلتے آخر کار پارٹی کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ کشواہا کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اگر ان کو ٹکٹ نہیں دینا تھا تو پھر ایسے داغی آدمی کو پارٹی میں لائے ہی کیوں؟ جس طرح پارٹی میں کشواہا کی اینٹری پر ہنگامہ ہوا اس سے لگتا ہے کہ یوپی میں تھوک کے بھاؤ پارٹی میں آنے والوں کی کوشش کرنے والے لوگوں کے بارے میں چھان بین ہوگی اور کئی داغیوں کی اینٹری پر اب بریک لگ جائے گا۔ شری اڈوانی اور سشما کے اختلاف کے بعد پارٹی کے اندر اب چناؤ کے وقت ہونے والے پارٹی بدل کے سلسلے میں پارٹی چوکس رہے گی۔ داغی لوگوں سے دور رہنا چاہئے۔ بھاجپا کو چاہئے کہ وہ اس بات کا بھی پروپگنڈہ کریں کہ بی ایس پی اور کانگریس کا اندرونی گٹھ جوڑ ہے اور اس کا پردہ فاش کرے۔ یہ اجاگر کیا جانا چاہئے۔ ویسے بھی بی جے پی میں آنے کے اگلے دن ہی اس شخص کے خلاف سی بی آئی کارروائی کررہی ہے یہ کارروائی دونوں مایاوتی اور کانگریس کو زیب دیتی ہے۔ بیشک یہ صحیح ہے یا نہیں لیکن بھاجپا کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ 30 دسمبر کو پارٹی کے قومی سکریٹری کرٹ سمیا کئی سو صفحے کے کاغذات کا پلندہ کشواہا کے خلاف سی بی آئی کو دیکر آتے ہیں اور اس کے چار دن بعد3 جنوری کو کشواہا کو نتن گڈکری صاحب پارٹی کے اندر آنے کی دعوت دیتے ہیں؟ افسوسناک بات یہ ہے کشواہا کا معاملہ اکیلا نہیں ہے اپنی کھوئی ہوئی زمین پھر سے حاصل کرنے کیلئے بھاجپا کی لیڈر شپ کسی حد تک تیار ہے۔کشواہا سے پہلے سابق وزیر بادشاہ سنگھ، اودھیش کمار ورما، گگن مشر جیسے سابق وزرا کو سیاسی پناہ دی گئی ۔جن کو مایاوتی نے پارٹی اور سرکار سے باہر نکالا بھاجپا نے اسے گلے لگا لیا۔ اپنے چال ، کردار، چہرے اور ساکھ کے معاملے میں دوسروں سے الگ اور پائیدار ہونے کا دعوی کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی یوپی میں اتنا گر گئی ہے کہ اس نے کانگریس اور سماجوادی پارٹی تک کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے کرپشن کے الزامات میں پارٹی یا کیبنٹ سے برخاست کئے گئے وزرا کو اپنا ٹکٹ دینے سے انکارکردیا۔ مگر بھاجپا نے اپنے دہلی ہیڈ کوارٹر میں ان داغیوں کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا اور حد تو اس وقت ہوگئی جب بھاجپا کے نائب صدر مختار عباس نقوی نے کہا کہ گندے نالے بھی گنگا میں ملنے کے بعد پوتر ہوجاتے ہیں۔ حال تک یہ ہی نقوی صاحب مایاوتی اور ان کے وزرا کو علی بابا اور چالیس چور بتا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ داغیوں کو پارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ بھاجپا صدر اور اعلی نیتاؤں کی رضامندی سے ہی ہوا ہوگا اس لئے یہ اور بھی خطرناک ہے۔ ایسی ذہنیت رکھنے والوں کو پارٹی میں شامل کرکے بھاجپا اترپردیش میں کیسا رام راجیہ لانا چاہتی ہے۔
Anil Narendra, Babu Singh Kushwaha, Bahujan Samaj Party, BJP, Congress, Daily Pratap, Nitin Gadkari, Samajwadi Party, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!